یمن کےمعصوم اسکول بچوں کا قتل عام انسانیت کے چہرہ پر ایک ایسا بد نما داغ ہےجو امریکہ اور اقوام متحدہ کی شکست کی دلیل ہے
بین الاقوامی امور کے ایرانی ماہر:
نیوزنور13اگست/بین الاقوامی امور کے ایک ایرانی ماہرنے سعودی حکومت کا بچوں کی اسکول بس پر کیے جانے والا وحشیانہ حملے کو دہایوں میں انجام پانے والے خوفناک حملوں میں وحشستناک ترین اور سفاک ترین حملہ قرار دیا ہے۔
عالمی اردو خبررساں ادارے’’نیوزنور‘‘کی رپورٹ کے مطابق بین الاقوامی امور کے ماہر ’’ حسن ہانی زادہ‘‘ نےکہا کہ یمن کے علاقے صعدہ میں سعودی حکومت کا بچوں کی اسکول بس پر کیا جانے والا وحشیانہ حملہ دہایئوں میں انجام پانے والے خوفناک حملوں میں وحشستناک ترین اور سفاک ترین حملہ ہے جو سعودی عرب کی سفاکیت اور وحشی گری کی علامت ہے۔
انہوں نے کہا کہ صہیونی حکومت کے سابق وزیر اعظم ایریل شارون کا فلسطینی بچوں پر کئے جانے والے حملوں کی عکاسی کرتے ہوئے محمد بن سلمان بھی یمنی معصوم بچوں کو ظلم کا نشانہ بنا یا ہے اور اس کی کوشش ہے کہ وحشت اور خوف کے ذریعہ یمنی عوام کو شکست سے ہمکنار کرے۔
موصوف ماہر نے کہا کہ اس تمام خون خرابے کے بعد اقوام متحدہ کا خاموش رہنا اقوام متحدہ کی ذلت پسند سوچ کی عکاسی ہے اور سعودی حکومت کی جانب سے دی جانے والی رشوت کا اثر واضح نمایاں ہے۔
انہوں نے کہا کہ معصوم اسکول کے بچوں کا قتل عام انسانیت کے چہرہ پر ایک بد نما داغ بن کررہے گا جو امریکہ اور اقوام متحدہ کی شکست کی دلیل ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت دینا میں جنگل کا قانون چل رہا ہے جس نے بین الاقوامی روابط کو شیدید نقصان پہنچایا ہےاور امریکہ ، اسرائیل اور سعودی عرب نے دینا کے بے آرامی اور بد امنی میں اضافہ کیا ہے۔
ایرانی ماہر نے کہا کہ سعودی عرب، امریکہ اور اسرائیل اقوام متحدہ کی پشت پناہی سے مظلوم لوگوں کو موت کے گھاٹ اُتار رہے ہیں اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل جیسے امن کے ٹھیکے دار خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس سے بھی زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ یمنی معصوم بچوں کی ہلاکتوں کے بعد او، آئی ، سی کی جانب سے جدہ میں ایک اجلاس کا انعقاد کیا گیاجس میں بجائے اسکے کہ سعودی عرب کے اس اقدام کی مذمت کی جاتی ایران پر انصاراللہ کی حمایت کا الزام لگایا گیااور یہ امر اس بات کی دلیل ہے کہ بین الاقوامی ادارے حتی اسلامی کونسل بھی سعودی جنایت میں جانب دار ہے۔
حسن ہانی زادہ نے مزید کہا کہ یہی وجہ ہے کہ یمنی عوام نے کسی بھی ادارے سے کسی قسم کی مدد کی اُمید نہیں رکھی ہے اور خود ہی مقامی وسائل کی بنیاد پر مقابلہ کر رہے ہیں۔
- ۱۸/۰۸/۱۳