بشارالاسد کی حکومت کو گرانے میں امریکہ ذلت آمیز شکست سے دوچار / امریکہ کا نیا ہدف ومقصد اس عرب ملک کی تقسیم ہے
امریکی تجزیہ کار:
نیوزنور30/امریکہ کے ایک معروف سیاسی تجزیہ نگار نے کہا ہے کہ شام کے قانونی صدر بشارالاسد کی حکومت کو گرانے کے منصوبے میں ناکامی کے بعد اب امریکہ اس ملک کو چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کرنے کے ایک گھناؤنے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔
عالمی اردوخبررساں ادارے’’نیوزنور‘‘کی رپورٹ کے مطابق ایرانی ذرائع ابلاغ کےساتھ انٹرویو میں ’’جسن انروحی‘‘نےکہاکہ شام کے قانونی صدر بشارالاسد کی حکومت کو گرانے کے منصوبے میں ناکامی کے بعد اب امریکہ اس ملک کو چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کرنے کے ایک گھناؤنے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔
انہوں نے کہاکہ امریکہ اوردیگر سامراجی قوتوں نے شام کے خلاف سازشوں کو ابھی ترک نہیں کیا ہے ۔
انہوں نے کہاکہ اس حقیقت کے باوجود کہ دمشق حکومت روس اورایران کی حمایت سے جنگ میں فاتح ہوکر اُبھر رہی ہے ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ اس عرب ملک کو تقسیم کرنے کی مغربی حکومتوں کی سازشیں ابھی ختم نہیں ہوئی ہیں۔
انہوں نے کہاکہ امریکہ کی طرف سے شام میں سرگرم وائٹ ہلمٹس نامی دہشتگرد گروہ کو فنڈس جاری رکھنے کے وائٹ ہاوس کے فیصلے سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکہ نے شامی عوام اورحکومت کے خلاف اپنے منصوبوں کو ترک نہیں کیا ہے ۔
موصوف تجزیہ نگار نے کہاکہ امریکہ نے شام میں دہشتگردی کے خلاف مہم چھیڑنے کے بہانے اس ملک میں اپنی فوجیں بھیجی ہیں تاہم امریکہ کا اصل منصوبہ اب اس ملک کی تقسیم ہے۔
قابل ذکر ہے کہ شام کے صدر بشارالاسد نے اپنےایک حالیہ انٹرویو میں کہاتھا کہ امریکہ نے شام میں دہشتگردوں کی مدد کیلئے موجود اپنے فوجی دستوں کو جلد واپس نہ بلایا تو شامی سرزمین پر امریکی فوج کےساتھ تصادم کے امکانات بڑھ جائیں گے ۔
آرٹی کےساتھ انٹرویو میں انہوں نے کہاکہ ان کی حکومت امریکی حمایت یافتہ دہشتگردوں کےساتھ مذاکرات تو کرسکتی ہے لیکن اگر ضروری ہوا تو ان کے زیر قبضہ علاقوں کی واپسی کیلئے عسکری قوت کا استعمال بھی کیا جائےگا۔
انہوں نے کہاتھا کہ اگر امریکی فوجی اپنے حمایت یافتہ دہشتگردوں کی مدد کیلئے پہنچنے گے تب دمشق حکومت عسکری کاروائی کرےگی۔
واضح رہےکہ شام کو سن 2011 سے امریکہ، سعودی عرب ، ترکی اور قطر کے حمایت یافتہ دہشتگرد گروہوں کی سرگرمیوں کا سامنا ہے جس کے نتیجے میں چار لاکھ ستر ہزار سے زائد شامی شہری مارے جاچکے ہیں اور دہشتگردی کے نتیجے میں کئی لاکھ افراد اپنے ملک میں بے گھر اور لاکھوں دیگر ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
- ۱۸/۰۶/۳۰