2017ء میں 6 کروڑ 85 لاکھ افراد بے گھر ہوئے ہیں
یو این ایچ سی آرکےکمشنر:
نیوزنور20جون/اقوام متحدہ کی مہاجرین کے لیے قائم ایجنسی کے کمشنر نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ گزشتہ ایک سال میں جنگ، جرائم اور دیگر وجوہات کے باعث بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد 6 کروڑ 90 لاکھ کے قریب ہے جو مسلسل پانچویں سال ایک ریکارڈ ہے۔
عالمی اردو خبررساں ادارے’’نیوزنور‘‘کی رپورٹ کے مطابق رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کی مہاجرین کے لیے قائم ایجنسی یو این ایچ سی آر کے کمشنر ’’ فلیپو گیرانڈی‘‘نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا کہگزشتہ برس مجموعی طور پرمزید ایک کروڑ 62 لاکھ بے گھر افراد کااضافہ ہوا جو روزانہ کی بنیاد پر 44 ہزار افراد کی تعداد بنتی ہےاورعالمی سطح پر ان اعداد و شمار میں لاکھوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ تنازعات کے طول پکڑنے اور کوئی حل نہ نکلنے کے علاوہ ان تنازعات کا تسلسل ہے جس کے باعث ان ممالک کے شہریوں پر اپنے گھروں کو چھوڑنے کا دباؤ ہوتا ہے اور نتیجے کے طور پر روہنگیا جیسے بحران پیدا ہوجاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ اعداد و شمار ان ناقص تصورات کی کی بیخ کنی کررہے ہیں کہ جس کے مطابق مہاجرین کے بحران نے سب سے زیادہ ترقی یافتہ ممالک کو نقصان پہنچایا ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ 85 فیصد مہاجرین ترقی پذیر ممالک میں ہیں جن میں سے کئی انتہائی غریب ہیں۔
انہوں نے کہا کہ2017 کے اختتام تک کولمبیا، شام اور کانگو سے 40 لاکھ کے قریب مہاجرین بے گھر ہوئے جبکہ دیگر ممالک سے 2 کروڑ 54 لاکھ کے قریب لوگ بے گھر ہوئے جن میں سے اکثر تعداد بچوں کی تھی جو کہ 2016 کے مقابلے میں 30 لاکھ سے بھی زیادہ ہےطویل عرصے سے خانہ جنگی کا شکار شام سے 63 لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہوئے جو عالمی طور پر ایک تہائی تعداد بنتی ہےشام میں اندرونی طور پر 62 لاکھ افراد بے گھر ہوئے ہیں ۔
موصوف کمشنے نے کہا کہ دوسرے نمبر پر افغانستان ہے جہاں سے 2017 میں26 لاکھ افراد اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے جبکہ افغان مہاجرین کی آبادی میں 5 فیصد اضافہ ہوا ہے جن میں سے اکثر کو جرمنی میں پناہ دی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جنوبی سوڈان سے بھی بڑی تعداد میں نوجوانوں نے نقل مکانی کی جو سال کے ابتدا میں 14 لاکھ تھی اور سال کے آخر میں 24 لاکھ ہوگئی اور میانمار سے نقل مکانی کرنے والے افراد میں دوگنا 12 لاکھ کا اضافہ ہوا ہے۔
فلیپو گیرانڈی نے مزید کہاکہ عراق، صومالیہ اور دیگر ممالک سے بھی بڑی تعداد میں شہریوں نے نقل مکانی کی ہےاسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کے خلاف جاری ریاستی جبر کے باعث 54 لاکھ افراد اب بھی مہاجرین کی صورت میں رہنے پر مجبور ہیں یورپ اور امریکہ کے علاوہ 85 فیصد مہاجرین لبنان، پاکستان اور یوگنڈا جیسے کم آمدنی والے ممالک میں موجود ہیں۔
یاد رہے کہ ترکی مسلسل چوتھے سال بھی مہاجرین کی سب سے زیادہ تعداد کی میزبانی کرنے والا ملک ہے جہاں 2017 کے اختتام تک 35 لاکھ مہاجرین آئے جن میں سے اکثریت شام سے آنے والے مہاجرین کی تھی۔
واضح رہے کہ امریکہ کو گزشتہ برس انفرادی طور پناہ کے لیے سب سے زیادہ درخواستیں موصول ہوئیں جن کی تعداد 3 کروڑ 32 ہزار کے قریب ہے جبکہ دوسرے نمبر پر جرمنی ہے جہاں ایک کروڑ 98 ہزار کے قریب درخواستیں موصول ہوئیں۔