دہشتگردی کے خلاف ایران کی فتوحات نے امریکی،سعودی اور اسرائیلی منحوس مثلث کو پریشان کر رکھا ہے
رپورٹ :
نیوزنور19جون/امریکی اور اسرائیلی حکام ہمیشہ یہ پروپیگنڈہ کرتےہیں کہ شام میں ایران کی موجودگی ایک خطرہ ہے جبکہ ان کا یہ بے بنیاد دعوی درحقیقت علاقے سے متعلق امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب کی پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے کا ایک بہانہ ہے۔
عالمی اردو خبررساں ادارے’’نیوزنور‘‘کی رپورٹ کے مطابق امریکی اور اسرائیلی حکام ہمیشہ یہ پروپیگنڈہ کرتےہیں کہ شام میں ایران کی موجودگی ایک خطرہ ہے جبکہ ان کا یہ بے بنیاد دعوی درحقیقت علاقے سے متعلق امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب کی پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے کا ایک بہانہ ہےلیکن دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ایران کی اس کوشش کا علاقائی اور عالمی سطح پر مثبت نتیجہ برآمد ہوا ہے اور اسی حقیقت نے امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب کے منحوس تکون کو پریشان کررکھا ہے کیونکہ یہ تینوں اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اگر دہشتگردی کا خاتمہ ہوگیا اور عالم اسلام میں اتحاد اور یکجہتی مستحکم ہوگئی تو علاقے پر امریکہ کے ذریعے مسلط کیے گئے سیاسی اور سیکورٹی نظام کا شیرازہ پوری طرح سےبکھر جائے گا اوریوں علاقے میں امریکہ کی بساط پوری طرح لپیٹ دی جائے گی۔
رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ٹرمپ کے قومی سلامتی کے امور کے سابق مشیر میک مسٹر اسرائیل کے لئے ایران کے خطرے کے بارے میں کہتے ہیں کہ آج ہم چیز کو دیکھ رہے ہیں وہ اسرائیل کی سرحدوں پر ایران کی پراکسی فوج کی موجودگی ہے۔
صیہونی حکومت کے وزیراعظم نتن یاہو نے بھی فرانس کے صدر کے ساتھ اپنی حالیہ ملاقات میں کہا تھا کہ اسرائیل نے شام کے بارے میں اپنی اسٹریٹیجی تبدیل کردی ہے اور ہم شام میں ایران کی سرگرمیوں کو ٹارگٹ کریں گے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نتن یاہو نے اس سلسلے میں اپنے تازہ ترین بیان میں کہا ہے کہ ہم سرحدوں کے قریب اور شام کے اندر ایران کی فوجی موجودگی اور اس کی نیابتی فوج کی تقویت کی کوشش کو روکنے کے لئے اقدامات انجام دیں گے۔
یہ بیانات ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب شامی حکام نے ایران کے خلاف اسرائیلی عہدیداروں کے دعوؤں کو یکسر مسترد کردیا ہے اور ایران نے بھی بارہا اعلان کیا ہے کہ شامی حکام کی سرکاری دعوت پر اس نے اپنے فوجی مبصرین شام کے لئے روانہ کئے ہیں تاکہ دہشتگردوں کے خلاف جنگ میں وہ شامی فوج کی مدد کرسکیں۔
رپورٹ کے مطابق ایران نے موجودہ حساس صورتحال کو درک کرتے ہوئے علاقے کی سیکورٹی سے متعلق اہم ترین چیلنجوں اور دہشتگردی کے خلاف اپنی توجہ مرکوز کررکھی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نتن یاہو کا بیان دراصل زخمی بھیڑئے کی طرح ہے جو ہر طرف دوڑتا ہے تاکہ خود کو بچانے کے لئے کوئی راستہ نکال سکے لہذا کسی حدتک یہ کہا جاسکتا ہے کہ امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب کی یہ شکست علاقے میں کشیدگی اور دشمنیوں کے ایک نئے دور کا پیش خیمہ ہوسکتی ہے البتہ ان کشیدگیوں میں اضافے میں متعدد عوامل کو دخیل سمجھا جاسکتا ہے جن میں امریکہ کی سرپرستی میں داعش کے خلاف نام نہاد اتحاد کی تشکیل، غزہ میں اسرائیل کے جرائم کی حمایت، امریکی سفارتخانے کی تل ابیب سے بیت المقدس منتقلی اور سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے ذریعے بے گناہ یمنی عوام کا قتل عام وہ عوامل ہیں جنہوں نے علاقے کی سیکورٹی کو وسیع تر خطرات سے دوچار کر رکھا ہے۔