کردوں کے پاس دمشق حکومت کےساتھ مذاکرات کے سوا کوئی اورآپشن موجود نہیں ہے
شامی تجزیہ کار:
نیوز نور 12 جون/شام کے ایک معروف سیاسی تجزیہ کار نے اسٹریٹجک شہر منبج پر واشنگٹن اورانقرہ کے درمیان طے پانے والے معاہدے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کردوں کی دمشق حکومت کےساتھ مذاکرات پر آمادگی امریکہ کےساتھ ان کے تعلقات میں عدم استحکام اور شامی کردوں میں ایک اہم سیاسی پیشرفت ہے۔
عالمی اردو خبر رساں ادارے’’نیوزنور‘‘ کی رپورٹ کے مطابق ’’ندحال الصباح‘‘نے اسٹریٹجک شہر منبج پر واشنگٹن اورانقرہ کے درمیان طے پانے والے معاہدے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کردوں کی دمشق حکومت کےساتھ مذاکرات پر آمادگی امریکہ کےساتھ ان کے تعلقات میں عدم استحکام اور شامی کردوں میں ایک اہم سیاسی پیشرفت ہے۔
انہوں نے کہاکہ امریکہ کی طرف سے عفرین میں ترکی کی جارحیت پر خاموشی سے امریکہ کے ناپاک ارادے ظاہر ہوئے ہیں جس کے بعد کرد دمشق حکومت کےساتھ مذاکرات پر آمادہ ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ عفرین میں ترکی کے قبضے کے بعد علاقے میں جبہت النصرہ ،القاعدہ اورجیش الاسلام کی تعیناتی کردوں کے لئے باعث تشویش ہے۔
انہوں نے کہاکہ کر دفورسز اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ عراق وشام میں کرد حکومت کی تشکیل ناممکن ہے اور شام کے سات سالہ جنگ نے یہ ثابت کردیا ہے کہ بین الاقوامی برادری علاقے میں ایک آزاد کرد ریاست کے حامی نہیں ہے۔
انہوں نے کہاکہ کردوں کے پاس شامی حکومت کےساتھ مذاکرات کرنے ،اپنے ہتھیار ڈالنے، دمشق کےساتھ مذاکرات کرنے اور امریکہ کےساتھ ہر طرح کے سیکورٹی تعاون کو ختم کرنے کےسوا کوئی اور راستہ موجود نہیں ہے۔
انہوں نے کہاکہ دمشق کے غوطہ علاقے دوما ،حجر الاسوط اوریرموک کیمپ میں شامی فوج کی کامیابی کے بعد یقینی طورپر دمشق کے تئیں کردوں کے مؤقف میں تبدیلی آئی ہے۔
واضح رہےکہ شام کو سن 2011 سے امریکہ، سعودی عرب ، ترکی اور قطر کے حمایت یافتہ دہشتگرد گروہوں کی سرگرمیوں کا سامنا ہے جس کے نتیجے میں چار لاکھ ستر ہزار سے زائد شامی شہری مارے جاچکے ہیں اور دہشتگردی کے نتیجے میں کئی لاکھ افراد اپنے ملک میں بے گھر اور لاکھوں دیگر ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
- ۱۸/۰۶/۱۲