قیام امن اسرائیل کو تسلیم کرنے سے مشروط ہے
وائٹ ہاؤس:
قیام امن اسرائیل کو تسلیم کرنے سے مشروط ہے
نیوزنور04 مئی/وائٹ ہاؤس نے مشرق وسطی کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کیے جانے کو علاقے کے ملکوں کی جانب سے اسرائیل کو باضابطہ تسلیم کرلینے سے مشروط کیا ہے۔
عالمی اردوخبررساں ادارے‘‘نیوزنور’’کی رپورٹ کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ نے گزشتہ ہفتے ایٹمی عدم پھیلاؤ سے متعلق دوہزار بیس کانفرنس کی منتظم کمیٹی کے نام ایک مراسلے میں دعوی کیا ہے کہ امریکہ مشرق وسطی کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کیے جانے کا پابند ہے لیکن ساتھ ہی علاقے کے سیاسی اور سیکورٹی مسائل پر بھی توجہ دیئے جانے پر زور دیتا ہے۔
اس مراسلے میں یہ بھی دعوی کیا گیا ہے کہ علاقے کے ملکوں کے درمیان پائی جانے والی بداعتمادی کی وجہ سے مشرق وسطی مسلسل مشکلات کا شکار ہے اور سیاسی بنیادوں پر ہونے والی لڑائیاں اور تفرقہ انگیزی اس کی اہم وجوھات ہیں۔امریکی مراسلے میں آگے چل کر دعوی کیا گیا ہے کہ خطے کے بعض ممالک اسرائیل کو خود مختار ملک کے طور پر تسلیم نہ کرکے اور اس کے ساتھ تعاون نہ کرکے، خطے میں بحالی اعتماد کی کوششوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور حتی اسرائیل کو الگ تھلگ کرنے میں مصروف ہیں۔
امریکی مراسلے میں عراق، ایران، لیبیا اور شام کے خلاف اسرائیل کے فرسودہ دعووں کا اعادہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ ممالک گزشتہ برسوں کے دوران خفیہ طور پر ایٹمی ہتھیار بنانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔
امریکہ ایسے وقت میں مشرق وسطی کے استحکام اور ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کا راگ الاپ رہا ہے جب اسرائیل نے تاحال این پی ٹی پر دستخط نہیں کیے ہیں اور نہ ہی اس نے اپنی خفیہ ایٹمی تنصیبات پر آئی اے ای اے کے سیف گارڈز کی نگرانی کو قبول کیا ہے۔
مغربی ذرائع ابلاغ کی جاری کردہ رپورٹوں کے مطابق اسرائیل کے پاس کم سے کم اسی ایٹمی وار ہیڈز موجود ہیں جبکہ آزاد ذرائع کی رپورٹوں میں یہ تعداد دو سو سے چار تک بتائی جاتی ہے بنا برایں اسرائیل کے ایٹمی ہتھیاروں سے پوری دنیا کی سلامتی کو سنگین خطرہ لاحق ہے۔