ایران کے صبر کا پیمانہ لبریز ہورہا ہے/خلیجی ممالک میں امریکی فوجی اڈے ایران کے نشانے پر ہیں
رائے الیوم کے مدیر اعلیٰ:
نیوزنور29مئی/معروف عرب تجزیہ کار اور رائے الیوم کے مدیر اعلیٰ نے کہا ہے کہ بےشک امریکہ ایرانی میزائل کی مار سے بہت دور ہے لیکن عرب ممالک بالخصوص خلیج فارس کی عرب ریاستوں میں امریکی فوجی اڈے ایسے ہرگز نہیں ہیں اور یہ پیغام بڑا واضح ہے چنانچہ اگر اس جنگ کی پہلی چنگاری اُٹھی تو یہ تباہی اوربربادیوں کے لحاظ سے بھی اور طویل المدت ہونے کے لحاظ سے بھی سابقہ جنگوں سے بالکل مختلف ہوگی۔
عالمی اردوخبررساں ادارے’’نیوزنور‘‘کی رپورٹ کے مطابق بین الاقوامی اخبار رای الیوم کے چیف ایڈیٹر ’’عبدالباری عطوان‘‘ نے اپنی یادداشت بعنوان’ان دنوں علاقے کے عرب ملکوں میں امریکی اڈوں پر ایران کی گہری نگرانی کی خبریں منظر عام پر کیوں نہیں آتیں؟‘ میں لکھا ہے کہ ایران ہر قیمت پر ایٹمی معاہدے میں نہیں رہے گا اور جنگ کے سائے علاقے پر منڈلارہے ہیں۔
انہوں نے لکھا ہے کہ ایٹمی معاہدے سے امریکہ کے الگ ہونے پر ایران دفاعی رد عمل چھوڑ کر گذشتہ چند روز سے حملے کی پوزیشن میں منتقل ہوا ہے اور یہ نیا اور پہلے سے منصوبہ بند تزویری قدم ان سات شرطوں میں مجسم ہوا ہے جو انقلاب اسلامی کے قائد اعلٰی امام خامنہ ای نے ایٹمی معاہدے کی نسبت اپنے ملک کی پابندی کے لئے یورپی ممالک کے سامنے رکھی ہیں اور ادھر ایرانی افواج کے اسٹریٹجک اسٹڈیز کے سربراہ جنرل احمد رضا پوردستان نے بھی براہ راست اور اعلانیہ دھمکی دی ہے کہ اگر ایران کو امریکہ کی طرف سے کسی بھی قسم کی جارحیت کا سامنا کرنا پڑا تو چار عرب ممالک یعنی اردن، سعودی عرب، امارات اور قطر میں امریکی اڈوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔
موصوف تجزیہ کار نے کہا کہ ظاہر ہے کہ ایران کے قائد تین یورپی ملکوں برطانیہ، جرمنی اور فرانس کو موقع فراہم کرنا چاہتے ہیں کہ وہ ایٹمی معاہدے سے ٹرمپ کی علحیٰدگی پر اپنی غیر جانبداری کا ثبوت دیں لیکن ساتھ ہی وہ اس کھیل کے دورانیے کے تعین کو ان کے سپرد نہیں کرنا چاہتے اسی بنا پرامام خامنہ ای کی طرف سے سات شرطیں متعین ہوئیں جنہیں نائب وزیر خارجہ عباس عراقچی ویانا کی نشست میں لے گئے یہ نشست گذشتہ جمعرات اور جمعہ کو امریکی پابندیوں کے مقابلے میں ایران کے مفادات کی ضمانت کی فراہمی کے مقصد سے منعقد ہوئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ ان تین شرطوں میں پہلی شرط یہ ہے کہ ایران کے ساتھ مغربی ممالک اور چین اور روس کا ایٹمی معاہدہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظور کردہ قرارداد ۲۲۳۱ کے تحت منعقدہ ہوا ہے اور امریکہ کی اس سے علحیٰدگی قرارداد کی خلاف ورزی سمجھی جاتی ہے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے امریکہ کی مذمت میں ایک قرار داد جاری ہونا چاہئے۔
دوسری شرط یہ ہے کہ ایران اپنے بیلسٹک میزائلوں کے سلسلے میں کسی قسم کے مذاکرات میں حصہ نہیں لےگا کیونکہ بیلسٹک میزائل ایران کی دفاعی حکمت عملی کا حصہ ہیں اور ان کے بارے میں کوئی بھی بات سرخ لکیر سمجھی جاتی ہے۔
تیسری شرط یہ ہے کہ یورپ کے ساتھ تجارتی لین دین منجملہ بھارت، چین اور جاپان کو ایران کے تیل کی برآمدات اور متعلقہ بینکاری کے معاملات کے سلسلے میں یورپ کو مکمل ضمانت دینا پڑے گی۔
رائے الیوم کے مدیر اعلیٰ نے کہا کہ اگر یورپ اور تین دیگر اصلی ممالک نے مختصر سی مدت میں جو چند ہی ہفتوں پر مشتمل ہوگی معاہدے کی پابندی کا عملی ثبوت نہیں دیا تو ایران بھی اس معاہدے کا پابند نہیں رہے گا اور یہ ملک یورینیم کی اعلٰی درجے کی افزودگی کا فورا آغاز کرے گااورایران کی یورینیم کی افزودگی کی طرف واپسی امریکہ کے ساتھ تناؤ میں شدت آنے کا سبب بنے گی اور یہ تناؤ ایسے مرحلے میں داخل ہوگا جو علاقے کو جنگ میں دھکیل دے گا اور یہ بالکل واضح ہے کہ ایران امریکہ کے آگے پسپائی اختیار نہیں کرے گا اور شدید پابندیوں کو برداشت نہیں کرے گا ایسی پابندیاں جو در حقیقت ایران کے اسلامی نظام کے خاتمے کی تمہید کے طور پر وضع کی جارہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جنرل پوردستان ایران کے عسکری انٹیلجنس کے اہم کمانڈروں میں شمار ہوتے ہیں اور ان کا ماتحت ادارہ اردن اور خلیح فارس کی ساحلی ریاستوں میں امریکی اڈوں کی نگرانی پر مامور ہےاور یہ ادارہ خلیح فارس اور اردن میں امریکی نقل و حرکت کی پوری معلومات رکھتا ہے چنانچہ ان کی دھمکی اس نظرئے کی تصدیق کرتی ہے کہ اگر امریکہ نے ایران کے خلاف کوئی جارحیت کی تو مذکورہ ممالک میں موجود امریکی اڈے ہیں ایران کے ابتدائی جوابی حملوں کا نشانہ ہونگے۔
انہوں نے کہا کہ یہ وہ پیغامات ہیں جو یک جہت طور پر بھی اور الگ الگ بھی ایران سے مل رہے ہیں اور ان سب پیغامات کا لب لباب یہ ہے کہ اقتصادی پابندیوں یا اسرائیل کی طرف شام میں ایران کے فوجی اہداف پر امریکی حملوں جیسے اشتعال انگیز اقدامات کے آگے ایران کے صبر کا پیمانہ لبریز ہورہا ہے اور ایرانی قیادت ایک خاص روش سے ان اقدامات کا جواب دے گی اور وہ بھی بہت محدود مدت میں اور یہ جوابی اقدامات اپنے بچاؤ اور اپنے مفادات کے تحفظ کے زمرے میں شمار ہونگے۔
مشہور عرب تجزیہ کار نے کہا کہ شام میں ایران کےفوجی اہداف پر اسرائیلی میزائل حملے تقریبا روز کا معمول بن چکے ہیں اورتازہ ترین حملے میں حمص میں واقع الضبعہ کے ہوائی اڈے کو نشانہ بنایا گیا اور اس موضوع نے نہ صرف ایرانی قیادت کو غضبناک کردیا ہے بلکہ اس کے حلیف روس کے لئے بھی درد سر بن چکا ہےیہاں تک کہ روس نے حال ہی میں اس کےحوالے سے اپنی شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے شام کو ایس ۳۰۰ فضائی دفاعی سسٹم کی حوالگی پر زور دیا ہے گوکہ یہ مؤقف نیم سرکاری ماہرین کے زبانی بیان ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ گذشتہ منگل کو سعودی عرب کے جنوب میں ابہا ایئرپورٹ کی طرف ڈرون بھجوانا اور اس سے پہلے یمن کے شہر صعدہ سے جیزان پر میزائل حملے بھی ایران کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کی نشانیاں ہوسکتی ہیں بےشک حوثی مجاہدین کے پاس اس قسم کے ڈرونز بنانے کی ٹیکنالوجی نہیں ہے اور اگر ان کے پاس یہ ڈرون بنانے کی صلاحیت ہو تو اس کی ٹیکنالوجی بھی ایرانی ہے اور اس کی تربیت دینے والا دماغ بھی ایران ہے خواہ یہ ڈرونز اور وہ میزائل ایرانیوں نے خود نہ ہی بھیجے ہوں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے دیکھا کہ ایک ۳۵۰ ڈالر کی لاگت سے بنے ڈرون نے جنوبی سعودی عرب کے مرکزی ہوائی اڈے کو کس طرح سراسیمگی سے دوچار کردیا اور سعودیوں کو اسے گرانے کے لئے لاکھوں ڈالر دے کر خریدے جانے والے پیٹریاٹ میزائل استعمال کرنا پڑے۔
انہوں نے کہا کہ بےشک امریکہ ایرانی میزائل کی مار سے بہت دور ہے لیکن عرب ممالک بالخصوص خلیج فارس کی عرب ریاستوں میں امریکی فوجی اڈے ایسے ہرگز نہیں ہیں یہ پیغام بڑا واضح ہے چنانچہ اگر اس جنگ کی پہلی چنگاری اُٹھی تو یہ تباہی اور بربادیوں کے لحاظ سے بھی اور طویل المدت ہونے کے لحاظ سے بھی سابقہ جنگوں سے بالکل مختلف ہوگی۔
عبدالباری اطوان نے مزید کہا کہ یہ بہت افسوسناک امر ہے کہ ہم عرب ممالک میں سے کئی ممالک پہلی بار اسرائیل کے مترادف سمجھے جائیں گے اور اس جنگ سے ہمیں جانی اور مالی نقصانات اُٹھانا پڑیں گے اور یہ ہماری مصیبت کا عروج ہے۔