نئی حکومت پرانے چہرےعوام کو گمراہ کرنے کی ایک اور کوشش
فلسطینی تجزیہ نگار اور سیاسی امور کے ماہر:
نیوزنور04فروری/فلسطینی تجزیہ نگار اور سیاسی امور کے ماہر نےئ کہا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس نے حال ہی میں اپنی وفادار حکومت کے سربراہ رامی الحمد اللہ کو سبکدوش کرتے ہوئے نئی مخلوط حکومت کے قیام کی دعوت دی ہےاور فلسطینی صدر کی طرف سے پارلیمنٹ کو بائی پاس کرکے نئی حکومت کی تشکیل کا اعلان اتھارٹی کو درپیش بحران کی عکاسی کرتا ہے۔
عالمی اردو خبررساں ادارے’’نیوزنور‘‘کی رپورٹ کے مطابق فلسطینی تجزیہ نگار اور سیاسی امور کے ماہر’’ ماہرہانی المصری ‘‘ نے کہا کہ گذشتہ ہفتے تحریک فتح کی طرف سےتنظیم آزادی فلسطین میںموجود دیگر جماعتوں میں پر مشتمل قومی حکومت کی تشکیل کا اعلان کیاگیا اس اعلان کے ساتھ ہی یہ بات بھی مشہور کردی گئی کہ نئی حکومت میں بھی تقریبا وہی پرانے چہرے ہوں گے جو اس سے سبکدوش ہونے والی حکومت کا حصہ رہے ہیں اور رامی الحمد اللہ اس نئی حکومت کے سربراہ ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطین کی بیشتر نمائندہ جماعتوں نے تحریک فتح اور صدر عباس کی اس نئی سیاسی چال کو مسترد کرے ہوئے کہا کہ تحریک فتح کی قیادت میں انہیں نئی حکومت قبول نہیں کیونکہ فتح کی طرف سے واضح طورپر کہا گیا کہ ملک نئی قومی حکومت میں حماس کو شامل نہیںکیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ نئی مخلوط حکومت کے متعدد پس منظر ہوسکتے ہیں قائم مقام یا عبوری حکومت سلام فیاض کی حکومت کی طرح طویل مدت تک کام کرے گی تاہم ایک سینیاریو یہ ہے کہ رامی الحمد اللہ کی نئی حکومت چھ ماہ کام کرے گی اور اس کا کام ملک میں انتخابات کا انعقاد کرانا ہے۔
موصوف تجزیہ کار نے کہا کہ فلسطین کے عوامی اور سیاسی حلقوں میں صدر عباس کی طرف نام نہاد مخلوط حکومت کی تشکیل کے اعلان کو عوام میںپھوٹ پیدا کرنے کی دانستہ چال قرار دیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ نے فلسطینی معاشرہ گذشتہ 12 سال سے تقسیم کا شکار ہے اور صدر عباس کے اقدامات کا مقصد عوام میں مزید پھوٹ پیدا کرنا ہے۔
انہوںنے کہا کہ حکومت کی تشکیل کے حوالے سے پائے جانے والے اختلافات کی ایک وجہ حماس کے ساتھ جاری رسہ کشی بھی ہےاور نئی حکومت کا قیام عوام میں تقسیم کی سازش کو مزید آگے بڑھانا ہے۔
- ۱۹/۰۲/۰۴