بولٹن کی ایماء پر اگر امریکہ نے ایران پر حملے کی حماقت کی تو اُسے ایک ایسا نہ ختم ہونے والا تصادم شروع ہوگا جو اسرائیل کو نگل سکتا ہے
روسی تجزیہ کار:
نیوزنور02فروری/روس کے ایک معروف تجزیہ کارنے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ٹرمپ کے سیکورٹی امور کااسسٹنٹ جون بولٹن ایران پر حملے کا سوچ رہا ہے ۔
عالمی اردو خبررساں ادارے’’نیوزنور‘‘کی رپورٹ کے مطابق روس کے ایک معروف تجزیہ کار ’’ولادیمر سی گین ‘‘نےاپنے ایک مضمون میں لکھا کہ ٹرمپ کے سیکورٹی امور کااسسٹنٹ جون بولٹن ایران پر حملے کا سوچ رہا ہے ۔
انہوں نے لکھا کہ بولٹن نے ایران پر حملے کا بہانہ وہ چند راکٹ بتائے تھے جو عراق میں امریکی قونصل خانے کے قریب آگرے تھے کہ جس کے بارے میں خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ اس کے پیچھے ایرانی حمایت یافتہ گروہ ہوسکتےہیں جبکہ اس سے پہلے بغداد کے ڈپلومیٹک انکلیو میں کہ جہاں امریکی ایمبیسی بھی موجود ہے چند راکٹ آگرے تھے اس واقعے کے بعد امریکی قومی سلامتی کے ادارے نے کچھ میٹنگز کی اور ان میٹنگز کے بعد بولٹن نے پینٹاگون سے کہا کہ وہ ایک حملے کے آپشنز کے بارے میں بریف کریں
مضمون نگار کا کہنا ہے کہ ہر ملک کے مسلح افواج کے ہیڈکوارٹرایسے مسائل میں کچھ ابتدائی اقدامات کے بارے غور کیا جاتا ہے کہ جس میں ایک طاقت کے حامل دشمن پر ضرب لگانا اور اپنا دفاع کرنا وغیرہ شامل ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکی فوجی ہیڈکوارٹر میں بھی ایران کےخلاف مختلف قسم کے آپشنز پر غور خوص کیا جاچکا ہے ۔
مضمون نگار کے خیال میں جان بولٹن کا ایشو کچھ اور پہلو رکھتا ہے کیونکہ آگاہ افراد کا کہنا ہے کہ بولٹن کی جانب سے پینٹاگون کو ایران پر حملے کے آپشنز کے لئے تیار رہنے کی بات صدر ٹرمپ کے علم میں لائے بغیر ذاتی نوعیت کی بات تھی اوریہی وجہ ہے کہ یہ بات پینٹاگون کے لئے بھی اچنبے کی تھی کہ جس کی وہ بالکل بھی توقع نہیں رکھ رہا تھا یہاں تک کہ پینٹاگون کے بہت سےآگاہ اور جانکاری رکھنے والے ملازمین حیرت زدہ تھے۔
مضمون نگار کے مطابق پینٹاگون نے تمام تر آپشنز کے بارے میں معلومات فراہم کیں بشمول ایسے فضائی حملے جو ایرانی اہم تنصیبات پر کئے جائیں ظاہر ہے کہ اس قسم کے حملے کےمقصدعسکری سے زیادہ سیاسی اہداف ہوتے ہیں لیکن اسی دوران اس وقت کے وزیردفاع میٹس سمیت بہت سے اہم ذمہ داروں نے اس قسم کے کسی بھی حملوں کی مخالفت کی اور یوں آخر کار یہ مسئلہ ناقابل عمل ہوکر رہ گیا لیکن آج میٹس کی جگہ نیا وزیر دفاع آیا ہے اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اس کے ارادے کیا ہیں لیکن یہ بات واضح ہے کہ ایران پر کسی بھی قسم کا حملہ ایک وسیع تصادم کو شروع کرسکتا ہے کیونکہ اگر امریکہ ایران کی اہم تنصیبات پر کسی بھی قسم کے فضائی حملوں کو پیش نظررکھتا ہے تو بھی اس کا نتیجہ خطے میں موجود امریکی اڈوں پر ایرانی جوابی میزائل حملوں کی شکل میں نکل آئے گا ایران کے میزائل پروگرام میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ ان اہداف کو نشانہ بناسکے تو کیا امریکہ ایک ایسی جنگ کے لئے تیار ہے ؟
انہوں نے لکھا کہ امریکی افواج کاجنگی ہدایت نامہ کہتا ہے کہ زمینی کارروائی میں کامیابی کے لئے کم از کم چھ گنازیادہ برتر ی کا موجود ہونا ضرور ی ہے تو کیا امریکی افواج ایک ایسی جنگ کے کسی بھی پہلو میں اس قسم کی برتری رکھتی ہے ؟
انہوں نے لکھا کہ ایران کی مسلح قوت کی تعداد 5لاکھ چالیس ہزار سے لیکر 9لاکھ تک ہے ایرانی دفاعی نظریے میں بسیج یا رضاکار فورسز بنیادی اور کلیدی کردار رکھتی ہیں جو مسلح بسیج عاشورہ بٹالین مردوں کی فورس تو الزھرا بٹالین خواتین کی فورس کہ جوکم ازکم 400 نفری پر مشتمل ہوتی ہے اور اس وقت ایران میں ایسی ڈھائی ہزار بٹالین موجود ہیں کہ جن کی مجموعی تعداد اس وقت 10لاکھ سے زیادہ ہے ان رضاکاروں کی نظریاتی اور عسکری تربیت اعلیٰ معیار کی ہوتی ہے جبکہ ایرانی بسیجی سسٹم نے اس وقت 12ملین ایرانیوں کو اپنے اندر سمویا ہوا ہے کہ جن کی اہم ذمہ داریوں میں سے ایک ملک کا دفاع کرنا ہے تو ایسی صورت میں کیا یہ ممکن ہے کہ چھ گنازیادہ برتری تو دور کی بات دو گنا زیادہ برتری کو بھی حاصل کیا جاسکتا ہے ؟
مضمون نگار نے لکھا کہ پینٹاگون اس صورتحال سے اچھی طرح واقف ہے اور اسی لئے ایران پر کسی بھی قسم کی کاروائی کو بعید سمجھتا ہے لیکن بولٹن کا انداز انتہائی مختلف ہے امریکہ کے اعلٰی ترین ایک عہد ے پر بیٹھے فرد کا یہ انداز انتہائی حساس اور اپنے عہدے کے برخلاف ہے بولٹن ایران کے سخت مخالفین میں سے ہے جارج بش کے دور سے لیکر اب تک اس کی ایران مخالف سوچ ڈھکی چھپی نہیں ۔
واضح رہے کہ امریکی ذرائع ابلاغ مشرق وسطیٰ میں امریکی کردار سمیت ان رویوں کو لیکرامریکی ذمہ داروں میں موجود پریشانی کا اظہار کرتے ہیں سب سے بڑا مسئلہ ٹرمپ اور اس کے اطراف بیٹھے ذمہ داروں کا طرز عمل ہے کہ جس کے بارے میں کوئی بھی یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا کہ کب کیا کربیٹھیں گے ۔