افغان حکومت مسلسل ملک پر سےکنٹرول کھو رہی ہے
امریکی رپورٹ:
نیوزنور02فروری/امریکی اسپیشل انسپکٹر جنرل افغانستان ریکنسٹرکشن (ایس آئی جی آر) کی کانگریس کے لیے تیار کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکی صدر کی گزشتہ برس پیش کردہ جنوبی ایشیا سے متعلق نئی پالیسی کے نفاذ سے جنگ زدہ خطے میں استحکام آنے کے کوئی شواہد نہیں ملےاورسال 2018 میں جہاں افغانستان میں عسکریت پسندوں کی پوزیشن مضبوط ہوئی وہیں افغان حکومت کے ملک پر کنٹرول میں مزید کمی آئی۔
عالمی اردو خبررساں ادارے’’نیوزنور‘‘کی رپورٹ کے مطابق امریکی اسپیشل انسپکٹر جنرل افغانستان ریکنسٹرکشن (ایس آئی جی آر) کی کانگریس کے لیے تیار کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکی صدر کی گزشتہ برس پیش کردہ جنوبی ایشیا سے متعلق نئی پالیسی کے نفاذ سے جنگ زدہ خطے میں استحکام آنے کے کوئی شواہد نہیں ملےاورسال 2018 میں جہاں افغانستان میں عسکریت پسندوں کی پوزیشن مضبوط ہوئی وہیں افغان حکومت کے ملک پر کنٹرول میں مزید کمی آئی۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ 2018 کے آخری سہ ماہی میں افغانستان میں موجود امریکی سول اور فوجی حکام سے موصول ہونے والے ضلعی سطح کے اعداد و شمار میں ساؤٔتھ ایشیا کی نئی حکمتِ عملی کا کوئی فائدہ دیکھنے میں نہیں آیاہےافغانستان میں موجود ایک مشن کی مئی 2018 میں بھیجی گئی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے ایس آئی جی آر نے اس بات سے اتفاق کیا کہ امریکہ تنہا افغانستان کے حالات کو بہتر بنا کر تعمیر نو اس وقت تک نہیں کرسکتا جب تک اسے ملک کے اندر سے حمایت حاصل نہ ہو۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ استحکام کے لیے بنائی گئی حکمتِ عملی اور پروگرام افغانستان کے حالات سے مکمل مطابقت نہیں رکھتےاور افغان اضلاع کو مستحکم کرنے میں کامیابیاں شاذ و نادر ہی اتحادی فوجیوں اور شہریوں کی موجودگی میں زیادہ وقت تک جاری رہیں۔
امریکی کانگریس کے دیے گئے اختیار پر مرتب کردہ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغان حکومت کا ملک پر کنٹرول اور اثر و نفوز بتدریج کم ہورہا ہے اور جولائی 2018 کے بعد سے عسکریت پسندوں کے کنٹرول میں اضافہ ہوا ہےاوراس سلسلے میں افغان حکومت کے زیر انتظام ضلعی آبادی پر کنٹرول میں مئی 2017 سے جولائی 2018 میں تبدیلی دیکھی گئی اور یہ 65 فیصد سے کم ہو کر 63.5 فیصد ہوگئی2018 کے آخری سہ ماہی میں اس میں 5 لاکھ افراد یعنی 1.7 کی فیصد کی مزید کمی دیکھنے میں آئی ایک اندازے کے مطابق 63.5 فیصد یعنی کل 3 کروڑ 33 لاکھ میں سے 2 کروڑ 12 لاکھ افغان شہری ان علاقوں میں رہتے ہیں جہاں افغان حکومت کا اثرو رسوخ ہےاوردوسری جانب عسکریت پسندوں کے زیر انتظام علاقوں میں 85 لاکھ لوگ رہائش پذیر ہیں جو آبادی کا تقریباً 25.6 فیصد حصہ ہے اس میں 2017 کے اسی عرصے کے مقابلے میں 2 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
رپورٹ کے مطابق 22 اکتوبر 2018 تک افغان حکومت کے کنٹرول میں 74 اضلاع تھے اور کل 145 پر اس کا اثر و نفوذ ہےان اعداد و شمار کے مطابق 2017 کی آخری سہ ماہی کے مقابلے میں 7 اضلاع حکومتی کنٹرول سے باہر ہوگئے ہیں اب افغانستان کے 12.3 فیصد اضلاع عسکریت پسندوں کے کنٹرول میں ہیں اور ایسے اضلاع جہاں نہ افغان حکومت کا کنٹرول ہے اور نہ ہی عسکریت پسندوں کا زور ان کی تعداد مزید 6 اضلاع کے اضافے کے ساتھ 138 ہوگئی ہے جو کل تعداد کا 33.9 فیصد ہے۔