بہت جلد جولان پہاڑیوں پر ایک نیا اسرائیل مخالف محاذ کھلنے جا رہا ہے جس نے اسرائیل کو شدید خوف اور وحشت کا شکار کر دیا ہے
کہنہ مشق عرب تجزیہ نگار:
نیوزنور25جنوری/ایک کہنہ مشق عرب تجزیہ نگاراور رائے الیوم کے مدیر اعلیٰ نے کہا ہے کہ ایران علاقائی اور عالمی سطح پر ایک ایسی فوجی طاقت کے طور پر اُبھر کر سامنے آیا ہے جس سے اسرائیلی سیاستدان اور فوجی کمانڈرز شدید خوفزدہ ہیں اور اسے اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتے ہیں۔
عالمی اردو خبررساں ادارے’’نیوزنور‘‘کی رپورٹ کے مطابق کہنہ مشق عرب تجزیہ نگاراور رائے الیوم کے مدیر اعلیٰ ’’عبدالباری اطوان‘‘نے اپنے ایک مراسلے میں لکھا کہ اسرائیل گذشتہ ایک عرصے سے شام کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتا آیا ہےالبتہ حالیہ دنوں میں اسرائیل کے جارحانہ اقدامات کی شدت میں اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اہم فرق بھی دیکھا گیا ہےاور یہ اہم فرق اسرائیلی حکام کی جانب سے شام پر فضائی جارحیت کی سرکاری طور پر ذمہ داری قبول کرنا ہے جس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔
انہوں نے لکھا ہے کہ اس ہفتے اتوار اور پیر کے دن اسرائیل نے ایک بار پھر دمشق کے بعض علاقوں کو میزائل حملوں کا نشانہ بنایا اسرائیلی حکام نے سرکاری سطح پر ان حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے ان کا مقصد شام میں ایران کے مبینہ فوجی مراکز کو نشانہ بنانا بیان کیا ہےدوسری طرف اسرائیل کے یہ میزائل حملے ایران کی مرکزیت میں اسلامی مقاومتی بلاک کیلئے بعض مثبت نتائج کا باعث بنے ہیں اگر ہم گذشتہ چند دنوں میں اسرائیل کے ان حملوں اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال کا بغور جائزہ لیں تو دیکھیں گے کہ اسلامی مقاومتی بلاک کے حق میں اسکے نتائج ظاہر ہوئے ہیں۔
انہوں نے لکھا کہ شام پر اسرائیلی جارحیت اور اس کے بارے میں اسرائیلی حکام کے اعلان کردہ مؤقف کا سب سے پہلا اور اہم ترین نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ایران اسرائیل کا نمبر ون دشمن بن کر سامنے آیا ہے ایران علاقائی اور عالمی سطح پر ایک ایسی فوجی طاقت کے طور پر ُابھر کر سامنے آیا ہے جس سے اسرائیلی سیاستدان اور فوجی کمانڈرز شدید خوفزدہ ہیں اور اسے اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتے ہیں اور اس کی اہمیت اس وقت زیادہ واضح ہوتی ہے جب ہم اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان گذشتہ ایک صدی سے شروع ہونے والے تنازعے کا تاریخی جائزہ لیتے ہیں اس تنازعے کی تاریخ میں جو ملک بھی اسرائیل کے سب سے بڑے دشمن کے طور پر سامنے آیا ہے عرب اور اسلامی دنیا میں اسے ایک ہیرو کی نظر سے دیکھا گیا ہےاگر چہ تاریخ میں یہ کردار کئی عرب ممالک کو حاصل رہا ہے لیکن آج ایران اس کردار کے روپ میں اُبھر کر سامنے آ رہا ہے۔
موصوف تجزیہ کار نے لکھا کہ وہ حقیقت جس سے بعض عرب حکمران غافل ہیں یہ ہے کہ ایران ایک ایسے ملک میں تبدیل ہو چکا ہے جس نے اسرائیل سے ٹکر لے رکھی ہے اور اسرائیل کا مدمقابل تصور کیا جا رہا ہےاور یہ امر اسرائیل کے خلاف جدوجہد میں عرب ممالک کی عدم موجودگی کے باعث پیدا ہونے والے خلاء کو پر کرنے کا باعث بنا ہےکیونکہ آج ایران پورے عرب خطے کا لیڈر بن چکا ہے جس کے نتیجے میں ماضی میں عرب حکمرانوں اور میڈیا کی جانب سے ایران پر جتنے بھی توہین آمیز عناوین جیسے مجوسی وغیرہ لگائے جاتے تھے ان سے مبرا ہوتا جا رہا ہےاوراس میں کوئی شک نہیں کہ یمن، عراق، شام، فلسطین اور لبنان میں ایران کا اثرورسوخ بڑھتا جائے گا اور بہت جلد سوڈان میں بھی ایران واپس آ جائے گا اور وہ عرب حکمران جنہوں نے اسرائیل سے سازباز کا راستہ اختیار کر رکھا ہے ان پر یہ محاورہ سجتا ہے کہ دوسروں کی آنکھوں تو بال بھی دیکھ لیتے ہیں لیکن اپنی آنکھ میں تیر بھی نظر نہیں آتا۔
رائے الیوم کے مدیر اعلیٰ نے لکھا ہے کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ شام پر اسرائیل کے ہوائی حملوں کے بارے میں روس کا ؤوقف موجودہ سال میں گذشتہ برس سے مختلف ہو اس کی ایک وجہ شام پر مسلسل اسرائیلی جارحیت پر خاموشی اختیار کرنے پر روس پر ہونے والے اعتراضات ہیں یہ امر خطے میں شام کا ایک بااعتماد اتحادی ہونے کی حیثیت سے روس کی پوزیشن خراب ہونے کا باعث بن سکتا ہے لہذا یہ محض اتفاق نہیں کہ روسی حکام نے اخبار کامرسینٹ کو فراہم کردہ ایک رپورٹ میں جو منگل کے روز شائع ہوئی ہے اس بات پر زور دیا ہے کہ روس کی جانب سے شام کو مہیا کیا گیا جدید میزائل ڈیفنس سسٹم ایس 300 مارچ کے مہینے سے آپریٹو ہو جائے گااور اس رپورٹ سے اس سوال کا جواب بھی مل جاتا ہے کہ اب تک اسرائیلی فضائی جارحیت کے مقابلے میں روسی میزائل ڈیفنس سسٹم نے کیوں کوئی سرگرمی ظاہر نہیں کی ہےاب تک شام کا فضائی دفاع قدیم میزائل ڈیفنس سسٹمز جیسے پانتسیر اور بوک کے ذریعے ہوتا آیا ہےایس 300 میزائل ڈیفنس سسٹم کے ایکٹو ہو جانے کے بعد شام کے فضائی دفاع میں انقلابی تبدیلی رونما ہو گی۔
انہوں نے لکھا کہ ایسے شواہد موصول ہوئے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ روس اور اسرائیل کے درمیان ایران کی حمایت یافتہ فورسز کا اسرائیل کی سرحد سے 80 کلومیٹر دور رہنے پر مبنی معاہدہ ختم ہو چکا ہےروس اور اسرائیل کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ایرانی اور ایران کی حمایت یافتہ فورسز جولان پہاڑیوں اور دیگر علاقوں میں اسرائیل کی سرحد سے 80 کلومیٹر کا فاصلہ برقرار رکھیں گی لیکن اب ایسی رپورٹس موصول ہوئی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایرانی فورسز جولان پہاڑیوں سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر دیکھی گئی ہیں لہذا معلوم ہوتا ہے کہ روس اور اسرائیل کے درمیان مذکورہ بالا معاہدے کی میعاد پوری ہو چکی ہےجو کہ اسلامی مقاومتی بلاک کیلئے ایک اچھی خبر ہے۔
انہوں نے لکھا کہ اسرائیل نے حالیہ جارحیت کے بعد بڑے زور و شور سے اس بات کا اعلان کیا ہے کہ اس نے دمشق میں ایران کے فوجی مراکز کو نشانہ بنایا ہے جبکہ خود اسرائیلی فوجی ماہرین بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ ایک بے بنیاد دعوی ٰہےاورحقیقت یہ ہے کہ اسرائیل ایسے دعوؤں کے ذریعے ایک تلخ حقیقت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے اور وہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ بہت جلد جولان پہاڑیوں پر ایک نیا اسرائیل مخالف محاذ کھلنے جا رہا ہے جس نے اسرائیل کو شدید خوف اور وحشت کا شکار کر دیا ہے۔