یہودی فلسطین چھوڑ کر بھاگ جائیں گے /یہودی مؤرخ کا سنسنی خیز اعتراف
اسرائیلی مورخ:

نیوزنور17جنوری/ ایک اسرائیلی مؤرخ نے حیران کن اور سنسنی خیز اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیلی تشخص کا کوئی مستقبل نہیں ہے اور یہودی فلسطین چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔
عالمی اردو خبررساں ادارے’’نیوزنور‘‘کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی مؤرخ ’’بینی مورس‘‘ کہ جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ سنہ ۱۹۴۸ع کے یوم نکبہ کے بعد سے فلسطینیوں کے خلاف انجام پانے والے جرائم کے بارے میں منصفانہ مؤقف اپناتا رہا ہے نے یہودی ریاست کے اخبارہارٹز کے ساتھ ایک انٹریو میں کہاکہ فلسطینیی اپنی پوری سرزمین کی آزادی اور صہیونیت کی بیخ کنی کے عزم کے پابند ہیں۔
موریس نے زور دے کر کہا کہ کوئی علاقائی تصفیہ ممکن نہیں ہے اور کسی صورت میں بھی ملکوں کو تقسیم کرکے امن کا قیام ممکن نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ جہاں تک یہودی ریاست کے طور پر اسرائیل کے وجود کا تعلق ہےتو میں نہیں جانتا کہ کیا ہونے والا ہے کیونکہ آج بحر اور نہر (بحیرہ روم اور دریائے اردن) کے درمیانی علاقوں یعنی سرزمین فلسطین میں عربوں کی آبادی یہودیوں سے کہیں زیادہ ہے اور اسرائیل مقبوضہ فلسطین کے تمام علاقے اور شہر و دیہات تبدیلی کے عمل سے گذر رہے ہیں اور ان تبدیلیوں کو روکنا ممکن نہیں ہے کیونکہ وہ واحد ریاست میں بدل رہے ہیں جہاں عربوں کی اکثریت ہوگی جبکہ اسرائیل یہودی ریاست کہلوانے پر اصرار کررہا ہے لیکن جس حالت میں ہم ایک مقبوضہ سرزمین کے عوام پر مسلط ہوئے ہیں جن کو کسی طرح کے حقوق نہیں دیئے گئے ہیں اس حالت کو اکیسویں صدی میں جاری نہیں رکھا جاسکتا اور اگر پھر ان کو ان کے حقوق دیئے جائیں تو اس صورت میں یہ ریاست یہودی ریاست نہیں رہے گی۔
موصوف مورخ نے کہا کہ اس سرزمین میں مشرق وسطٰی کی عرب اکثریتی ریاست قائم ہوگی اور اس ملک میں رہنے والے مختلف گروہوں کے درمیان تشدد میں اضافہ ہوگا اور عرب فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی کا مطالبہ کریں گے اور یہودی فلسطینی عربوں کے وسیع و عریض سمندر کے بیچ چھوٹی سی اقلیت میں تبدیل ہوجائیں گےاور کوئی ایسی وجہ نہیں ہے کہ فلسطینی اپنے مأقف سے پیچھے ہٹیں چونکہ یہ سلسلہ جاری نہیں رہ سکتاچنانچہ فلسطینیوں کی کامیابی لازمی اور ناگزیر ہے۔ شاید ۳۰ سال بعد یا ۴۰ سال بعد جو کچھ بھی ہوگاوہ ہم پر غلبہ پائیں گے۔
موریس نے کہا کہ جو بھی کہتا ہے کہ یہودی ریاست کے سابق وزیر اعظم ایہود بارک اور سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے فلسطینیوں کو کچھ تجاویز دی تھیں جنہیں قبول کرنا ان کے لئے ممکن نہیں تھا وہ جھوٹ بولتا ہے۔ فلسطینی ۱۰۰ فیصد مقبوضہ سرزمین کو چاہتے ہیں ۔
بینی مورس نے یہودی ریاست کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو پر کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہاکہ نیتن یاہو فلسطینوں کے ساتھ مصالحت کے منصوبے پر کام نہیں کررہا ہےگوکہ مصالحت کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوگی لیکن نیتن یاہو پر لازم ہے کہ دنیا والوں کی نظروں کے سامنے سفارتی کھیل کھیلتا رہے۔
یاد رہے کہ یہودی ریاست عربوں کے ساتھ شدیدترین دشمنی کے باوجود آج تک اس حوالے سے کوئی ثبوت پیش نہیں کرسکی ہے کہ فلسطین پر یہودی قبضے سے قبل یہودیوں کو عرب ممالک میں کسی قسم کے اجتماعی بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑا ہے چنانچہ انصاف کا تقاضا یہ تھا کہ بینی مورس یورپی ممالک میں یہودیوں کی صورت حال کی مثال دیتا جہاں اس جیسے یہودیوں کا دعوی ہے کہ انہیں قتل گاہوں یا ان کے بقول extermination camps میں لے جایا جاتا تھا اور کوڑا جلانے کی بھٹیوں میں جلایا جاتا تھاجبکہ ایسا کوئی واقعہ عرب اور اسلامی دنیا میں رونما نہیں ہوا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ شواہد بھی اور یہودی ریاست اور اس کے رو بہ زوال مغربی حامیوں کی صورت حال بھی ثابت کررہی ہے کہ یہودی ریاست کے دن گنے جاچکے ہیں اور جناب بینی موریس بھی مؤرخ ہونے کے ناطے اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ ہیں کیونکہ دل کو خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے۔
واضح رہے کہ بینی موریس نے بظاہر یہودی ریاست کی بقاء کی خاطر یہ پیش گوئیاں فرمائی ہیں کیونکہ وہ اسی غاصب سسٹم کا حصہ ہے اور اس مکالمے میں بھی اس کے الفاظ میں عربوں سے شدید نفرت کی جھلکیاں دیکھی جاسکتی ہیں ورنہ تو وہ مکار نیتن یاہو کو مکاری کا سبق دینے کی کوشش کیوں کرتا؟
- ۱۹/۰۱/۱۷