افغان تنازعے کا کوئی فوجی حل نہیں ہے
بین الاقوامی امور کے پاکستانی تجزیہ کار:
نیوزنور31دسمبر/بین الاقوامی امور کے ایک پاکستانی تجزیہ کا رنے کہا ہے کہ افغان تنازعے کاکوئی فوجی حل نہیں ہے اور امریکی بھی اس حقیقت کو محسوس کرتے ہیں تاہم وہ اسے کھلے عام تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔
عالمی اردوخبررساں ادارے’’نیوزنور‘‘کی رپورٹ کے مطابق ایرانی ذرائع ابلاغ کےساتھ انٹرویو میں ’’رحیم اللہ یوسف زائی‘‘نےکہاکہ افغان تنازعے کاکوئی فوجی حل نہیں ہے اور امریکی بھی اس حقیقت کو محسوس کرتے ہیں تاہم وہ اسے کھلے عام تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔
انہوں نے کہاکہ افغانستان سے سات ہزار فوجیں واپس بلانے کے فیصلے کے ذریعے ٹرمپ امریکی عوام کو یہ جتانے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ اپنے انتخابی وعدوں کو پورا کررہے ہیں۔
پاکستانی تجزیہ نگا رنے کہاکہ ٹرمپ طالبان کو یہ باور کرانے کی کوشش کررہے ہیں کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا ءکے ان مطالبے پر اسی وقت غور کیا جاسکتا ہے اگر وہ کا بل حکومت کےساتھ امن معاہدے پر اتفاق کرتے ہیں۔
افغان امور کے ماہر نے کہاکہ امریکہ افغانستان میں اپنی ناکامیوں کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں لیکن طالبان کےساتھ ان کی مذاکرات کی پیشکش امریکہ اوراس کے اتحادیوں کی شکست کی علامت ہے۔
انہوں نے کہاکہ گذشتہ 17سا لوں میں پہلی مرتبہ امریکہ افغان بحران کے سیاسی حل پر کام کررہا ہےاگرچہ امریکہ اس ملک میں اپنی اس شکست کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے تاہم اسے احساس ہے کہ وہ فوجی طاقت کے ذریعے افغانستان میں کامیاب نہیں ہوسکتا ۔
امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ نے افغانستان میں اپنی پالیسی میں واضح تبدیلی لاتے ہوئے اپنے فوجیوں کی تعداد میں قابل ذکر کمی کرنے کا حکم دیا ہے۔
امریکہ کی جانب سے افغان پالیسی میں واضح تبدیلی کا فیصلہ ایسے وقت کیاگیا ہے کہ جب 17 برس میں پہلی بار اس نے افغان طالبنان سے براہ راست بات چیت کی ہے جس کے بارے میں افغان طالبان کے ترجمان کا کہنا تھا کہ اس میں امریکی فوج کے انخلاء پر بات ہوئی ہے۔
دوسری جانب امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے امریکی حکام کے حوالے سے خبردی ہے کہ ٹرمپ نے محکمہ دفاع کو حکم دیا ہے کہ وہ افغانستان سے آئندہ مہینوں میں تقریباً سات ہزارفوجیوں کو نکال لیں۔
- ۱۸/۱۲/۳۱