سوڈانی صدر یمن کے خلاف سعودی جنگی اتحادی میں شامل ہونے اور ایران کےساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کی سزا بگھت رہے ہیں
روزنامہ رائے الیوم کے مدیر اعلیٰ:
نیوزنور 28دسمبر/روزنامہ رائے الیوم کے مدیراعلیٰ نے سوڈان کے مختلف شہروں و قصبوں میں حکومت کے خلاف جاری پرتشدد مظاہروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سوڈانی صدر عمر البشیر یمن کے خلاف سعودی جنگی اتحادی میں شامل ہونے اوراسلامی جمہوریہ ایران کےساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کی سزا بگھت رہے ہیں۔
عالمی اردوخبررساں ادارے’’نیوزنور‘‘کی رپورٹ کے مطابق اپنے ایک مضمون میں ’’عبدالباری اتوان ‘‘نےسوڈان کے مختلف شہروں و قصبوں میں حکومت کے خلاف جاری پرتشدد مظاہروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سوڈانی صدر عمر البشیر یمن کے خلاف سعودی جنگی اتحادی میں شامل ہونے اوراسلامی جمہوریہ ایران کےساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کی سزا بگھت رہے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ اسلامی جمہوریہ ایران کےساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے اور یمنی عوام کے خلاف سعودی جنگی اتحاد میں شامل ہونے کے بعد عمر بشیر کی سب سےپہلی یہ غلطی تھی کہ انہیں لگتا تھا کہ امریکہ سوڈان کے خلاف سیاسی اوراقتصادی محاصرے کو ختم کردےگا تاہم ایسا نہیں ہوااورواشنگٹن نے ابھی بھی اس ملک کو دہشتگردوں کی حمایت کرنے والے ملکوں کی فہرست میں رکھا ہوا ہے۔
انہوں نے کہاکہ یمنی عوام کے خلاف سعودی جنگی اتحاد میں شامل ہوکر عمر بشیر کو یہ لگتاتھا کہ خلیجی ممالک انہیں اربوں ڈالر کی مالی امداد کریں گے تاہم یہ ان کی دوسری غلطی ثابت ہوئی کیونکہ متحدہ عرب امارات ،سعودی عرب اورقطر کی طرف سے سوڈان کو ایک چھوٹی مالی امداد فراہم کی گئی۔
انہوں نے کہاکہ عمر بشیر کو یہ اُمید تھی کہ سعودی اتحاد میں شامل ہوکر عالمی عدالت انصاف ان کے خلاف چل رہے مقدموں کو ختم کردےگی تاہم ایسا کچھ بھی نہیں ہوا اورمستقبل میں ایسا ہونے کی کوئی اُمید نہیں ہے۔
انہوں نے کہاکہ عمر بشیر عرب اتحادیوں سے مایوس ہیں اوروہ اپنے ملک کو اقتصادی بحران سے نکالنے کیلئے ماسکو اورانقرہ کےساتھ تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ سوڈان میں گذشتہ کئی دنوں سے عمر بشیر کی حکومت مخالف پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے ان مظاہروں کے شرکا ءعمر بشیر کے استعفے کا بھی مطالبہ کررہےہیں۔
سیاسی واقتصادی عدم استحکام کے حامل افریقی ملک سوڈان میں مہنگائی اورایشائی ضروریت کی شدید قلت کے خلاف عوامی مظاہروں کا سلسلہ گذشتہ ہفتے کے دوران شروع ہوا تھا اور ابھی تک جاری ہے ۔
رپورٹوں کے مطابق سوڈانی صدر کی رہائش گاہ کے قریب منگل کو مظاہرین اورپولیس کےد رمیان شدید جھڑپیں ہوئیں مظاہرین آزادی کے نعرے لگارہے تھے ان مظاہروں کو ۲۹ برس سے برسراقتدار عمر بشیر کیلئے شدید خطرہ قراردیا جارہا ہےان مظاہروں کے شرکا ء صدر عمر بشیر سے مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی کررہے ہیں۔
عرب امور کے تجزیہ نگاروں نےحتیٰ اس تحریک کو ۲۰۱۱ء کی بہار عرب کی باز گشت قراردیا ہے۔
- ۱۸/۱۲/۲۸