شام سے امریکی فوج نکالنے کا فیصلہ ٹرمپ کے لئے دردسر
رپورٹ:

نیوزنور25دسمبر/شام اور افغانستان سے امریکی فوجیوں کو واپس بلانے کے فیصلے کے بعد کہ جس کے نتیجے میں وزیرجنگ جیمز میٹس نے استعفا دے دیا ہے ٹرمپ کو شدید چیلنجوں کا سامنا ہے۔
عالمی اردو خبر رساں ادارے’’نیوزنور‘‘کی رپورٹ کے مطابق سال دو ہزار اٹھارہ کے آخری ایام امریکی صدر ٹرمپ کی حکومت کے لئے خارجہ پالیسی کے میدان میں رد و بدل اور تبدیلیوں کے ساتھ رہےکیونکہ امریکی وزیرجنگ جیمز میٹس نے جو ٹرمپ انتظامیہ کو مستحکم بنانے میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں شام اور افغانستان سے فوجیوں کو واپس بلانے کے ٹرمپ کے فیصلے پرناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے عہدے سے استعفا دے دیا-
رپورٹ کے مطابق میٹس نے استعفے نامے میں صدر ٹرمپ کے ساتھ خارجہ پالیسی کےمیدان میں اختلافات کو صراحت کے ساتھ بیان کردیا ہےامریکہ کے مستعفی وزیرجنگ نے پٹناگون میں اپنی مدت کے آخری ایام میں شام سے امریکی فوجیوں کے نکلنے کے حکمنامے پر دستخط کر دیئے تاہم پنٹاگون نے اس سلسلے میں کوئی تفصیلی بیان جاری نہیں کیا کہ امریکی فوجی شام سے کب اور کس طرح سے نکلیں گے۔
رپورٹ کے مطابق شام میں امریکی پالیسیوں کے ناکام ہو جانے کے بعد صدر ٹرمپ نے گذشتہ بدھ کو اچانک شام سے اپنی فوج واپس بلانے کا اعلان کر دیا ٹرمپ نے اپنے اس فیصلے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ امریکی فوج داعش کو شکست دینےکے لئے شام میں داخل ہوئی تھی اور اب داعش کو شکست دی جا چکی ہےلیکن شام سے امریکی فوج کو اچانک واپس بلا لینے کے ٹرمپ کے فیصلے کی امریکہ کے اندر زبردست مخالفت کی گئی اور وزیرجنگ میٹس نے اس فیصلے کے خلاف اپنے عہدے سے استعفاد دے دیا جیمز میٹس اس بات سے بھی شدید طور پرناراض ہیں کہ صدر ٹرمپ نے اس فیصلے کی انہیں کوئی اطلاع تک نہیں دی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک ایسے وقت جب یہ توقع کی جارہی تھی کہ جیمز میٹس اپنے استعفے کے بعد کم سے کم دو مہینے تک اپنے عہدے پر باقی رہیں گے صدر ٹرمپ نے اپنے ٹویٹر پیج پر لکھا کہ نائب وزیر دفاع پیٹرک شاناہان کو وزارت دفاع کا سرپرست بنایا جا رہا ہے اور وہ پہلی جنوری سے اپنا کام شروع کر دیں گےامریکی وزیرجنگ جیمز میٹس کے استعفے کے بعد داعش مخالف نام نہاد امریکی اتحاد میں صدر ٹرمپ کے خصوصی نمائندے برٹ میک گورک نے بھی اپنے عہدے سے استعفا دے دیا۔
رپورٹ کے مطابق امریکی وزارت جنگ کے ایک عہدیدار نے جس نے اپنا ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی ہے میک گورک کے استعفے نامے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے استعفے کی وجہ شام سے فوج نکالنے کے ٹرمپ کے فیصلے پر احتجاج کرنا ہےاوریہ استفعیٰ اسی وجہ سے دیا گیا ہے جس بنا پر جیمز میٹس نے اپنے عہدے سے استعفا دیا تھا اس درمیان امریکی وزیرخارجہ مائیک پمپیئو کے نام داعش مخالف نام نہاد امریکی اتحاد میں صدر ٹرمپ کے خصوصی نمائندے برٹ میک گورک کے استعفے نامے سے جو بات نقل کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ داعش کو ابھی شکست نہیں ہوئی ہے شام سے امریکی فوج کے قبل از وقت نکل جانے سے داعش کو اس بات کا موقع مل جائے گا کہ وہ خود کو پھر سے منظم کرلے۔
قابل ذکر ہے کہ علاقے کے سیاسی اور دفاعی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ امریکی فوج کو گذشتہ برس ہی نکلنا تھا لیکن آل سعود حکومت نے شام میں تعینات امریکی فوج کے اخراجات کے لئے چار ارب ڈالر دے کر ان کے انخلاء کے عمل کو روک دیا تھا-
واضح رہے کہ علاقے کے سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ صیہونی حکومت اور آل سعود ٹرمپ کے اس فیصلے سے سب سے زیادہ ناراض ہیں اور شام کے مسائل میں سعودی عرب کے بعد سب سے زیادہ دھچکا اسرائیل کو لگا ہے کیونکہ شام کا بحران در اصل اسرائیل مخالفت استقامتی محاذ کو نابود اورصیہونی حکومت کو سیکورٹی فراہم کرنےکے لئے پیدا کیا تھا لیکن دہشتگردوں کی شکست اور شام سے امریکی فوج کے نکل جانے کے بعد یہ منصوبہ ناکام ہو گیا-
- ۱۸/۱۲/۲۵