نیوزنور newsnoor

نیوزنور بین الاقوامی تحلیلی اردو خبررساں ادارہ

نیوزنور newsnoor

نیوزنور بین الاقوامی تحلیلی اردو خبررساں ادارہ

نیوزنور newsnoor
موضوعات
محبوب ترین مضامین
تازہ ترین تبصرے
  • ۱۱ ژانویه ۱۹، ۱۴:۱۱ - گروه مالی آموزشی برادران فرازی
    خیلی جالب بود


روز نامہ رائے الیوم کے مدیر اعلیٰ :

 نیوزنور13دسمبر/ کہنہ مشق عرب تجزیہ کار اور روز نامہ رائے الیوم کے مدیر اعلیٰ نے کہا ہے کہ شام مشرق وسطٰی کا وہ ملک ہے جسے خطرناک دہشتگردی کا سامنا کرنا پڑا ہے  2011 سے اس ملک میں خطرناک کھیل شروع ہوا جس میں امریکہ، فرانس اور برطانیہ جیسے مغربی ممالک اور سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات اور ترکی جیسے علاقائی ملک مرکزی کھلاڑی کے طور پر کام کر رہے تھے ۔

عالمی اردو خبررساں ادارے’’نیوزنور‘‘کی رپورٹ کے مطابق کہنہ مشق عرب تجزیہ کار اور روز نامہ رائے الیوم کے مدیر اعلیٰ ’’عبد الباری اطوان‘‘ نے اپنے ایک مقالے میں کہا کہ شام مشرق وسطٰی کا وہ ملک ہے جسے خطرناک دہشتگردی کا سامنا کرنا پڑا ہے  2011 سے اس ملک میں خطرناک کھیل شروع ہوا جس میں امریکہ، فرانس اور برطانیہ جیسے مغربی ممالک اور سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات اور ترکی جیسے علاقائی ملک مرکزی کھلاڑی کے طور پر کام کر رہے تھے اوریہ ممالک شام میں بشار الاسد کی حکومت کی سرنگونی کے لئے متحد ہوئے تھے لیکن اندر ہی اندر ان ممالک میں سے ہر ایک نے اپنا الگ ہی ایجنڈا تیار کر رکھا تھا یہی وجہ تھی کہ جب بحران شام طولانی ہوا اور سازش اپنے ہدف تک نہیں پہنچ پائی تو سازش کرنے والے ممالک میں آپسی تصادم شروع ہو گیا ۔

انہوں نے لکھا ہے کہ ہر ایک نے اپنا الگ ایجنڈا تیار کیا اور ایجنڈے کو پورا کرنے کے لئے شام کے اندر سرگرم انتہا پسند تنظیموں سے رابطہ کیا قطر نے النصرہ فرنٹ کی مدد کی، سعودی عرب نے جیش الاسلام کی مدد کی، امریکہ نے فری سیرین آرمی کی مدد کی اور بعد میں کرد فورسز کو اپنا مہرہ بنا لیا ترکی نے بھی کئی تنظیموں سے ہماہنگی کی  اس درمیان ان تنظیموں میں آپسی ٹکراو شروع ہو گیا جس میں بڑی تعداد میں دہشتگرد ہلاک ہوئے۔ انہوں نے لکھا کہ شام کے عوام، فوج اور حکومت کا سامنا درجنوں کی تعداد میں موجود دہشتگردگروہوں سے تھا اور شام نے ایران، حزب اللہ اور روس جیسے اتحادیوں کی مدد سے سبھی علاقوں میں دہشتگردوں کو شکست دی یہی وجہ ہے کہ شام کے صدر بشار الاسد نے گزشتہ پیر کو عمان اخبار سے گفتگو میں کہا کہ اگر شام میں جنگ کی آگ بھڑکانے والے غیر ملکی عناصر اور اسباب کا خاتمہ ہو جائے تو کچھ مہینے کے اندر ہم جنگ پر کنٹرول کر سکتے ہیں ۔

صدر بشار الاسد نے یہ  بھی کہا کہ شام کے خلاف جنگ 2011 میں نہیں بلکہ یہ جنگ تو 20 سال پہلے ہی شروع ہو چکی تھی تاہم جیسے جیسے وقت گزرتا رہا اس میں تیزی آتی گئی اور جب سوشل میڈیا کا زمانہ آ گیا تو یہ جنگ بہت زیادہ وسیع ہوگئی  اس وقت داخلی جنگ کی صورتحال یہ ہے کہ ملک کے عوام حکومت کے ساتھ ہیں اوراگرغیر ملکی اسباب پرکنٹرول ہوجائے تو کچھ مہینے کے اندرہی جنگ کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے ۔

عرب تجزیہ کار نے لکھا کہ شام کی جنگ میں ہرملک نے اپنے مفاد کو مد نظر رکھا جبکہ غاصب اسرائیل نے بھی شام کی جنگ سے بڑیُ امیدیں لگا رکھی تھیں  اسرائیل جو زمین کا بھوکھا ہے وہ جولان کے پہاڑی علاقے کو قبضہ کرنے کے فراق میں تھا جس پر اس نے کئی عشروں سے غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے لیکن ساری دنیا اسے شام کا حصہ قبول کرتی ہے اور حال ہی میں اقوام متحدہ میں شام کے سفیر بشار الجعفری نے کہا کہ شام اس علاقے کو واپس لے گا چاہے پرامن طریقے سے یا پھر جنگ کے ذریعے۔

انہوں نے لکھا کہ ترکی کے بارے میں بھی کہا جاتا ہےکہ شام کے کئی سرحدی علاقوں پر اس کی نظریں تھیں  حکومت انقرہ یہ تصور کرتی تھی کہ اگر شام میں بشار الاسد کی حکومت کا تختہ پلٹ جائے گا تو نئی حکومت کمزور ہوگی ایسے میں اس کے لئے کچھ علاقوں پر قبضہ کر لینا آسان ہوگا ترکی خاص طور پر کرد علاقوں پر قبضہ کرنا چاہتا ہے تا کہ کرد تحریک کو پوری طرح سے کچل دے جو ترکی کے اندر علحٰیدگی پسندی کی جنگ میں مصروف ہےسعودی عرب نے یہ منصوبہ تیار کیا تھا کہ دمشق پر اس کے نزدیکی انتہا پسند تنظیموں کا قبضہ ہو گیا تو وہ لبنان میں اپنی حالت مضبوط کر لے گا لیکن اتنی خطرناک سازش کے نشانے پر آنے کے باوجود شام آج اپنی جنگ فتح کر چکا ہے اور اس وقت حالت یہ ہے کہ دار الحکومت دمشق اور دیگر علاقوں کا دورہ کرکے واپس آنے والے یہ بتا رہے ہیں کہ خانہ جنگی اورعالمی سازشوں نے اس ملک کو نقصان تو بہت پہنچایا ہے لیکن شام کے عوام ایک بار پھر اپنے معمولات زندگی میں مصروف نظر آرہے ہیں جو اپنی محنت کے لئے پورے علاقے میں خاص شہرت رکھتے ہیں ۔  

عبد الباری اطوان نے لکھا کہ آج اردن جیسے ہمسایہ ممالک کے عوام شام کا سفر کر رہے ہیں اور وہاں سے سستا سامان خرید رہے ہیں شام میں جنگ کے باوجود ضروریات کی اشیاء کی قیمتیں کافی کم ہیں  شام بہت تیزی سے اپنے ماضی کے حالات کی جانب لوٹ رہا ہے اور شاید اب عالم اسلام اور عرب دنیا ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر اس کی اہمیت پہلے سے زیادہ بڑھ جائے گی-

نظرات  (۰)

ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں لکھا گیا ہے
ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی