سعودی صحافی خاشقچی کی گمشدگی بدستور ایک معمہ بنی ہوئی ہے
فارن پالیسی کی تجزیہ کار :

نیوزنور11اکتوبر/فارن پالیسی کی ایک تجزیہ کار نے کہا ہے کہ ترکی کے ایک نشریاتی ادارے نے ایک سی سی ٹی وی فوٹیج جاری کی ہے جس میں سعودی حکومت کے سابق مشیر اور معروف کالم نگار جمال خاشقچی کے لاپتا ہونے کے حوالے سے مبینہ سعودی انٹیلی جنس اہلکاروں کو ایک خصوصی سعودی جہاز کے ذریعے ترکی آتے اور پھر واپس جاتے دکھایا گیا ہےجس سے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ جمال خاشقجی کی گمشدگی میں سعودی قونصل خانے کا کوئی کردار ہے۔
عالمی اردو خبررساں ادارے’’نیوزنور‘‘کی رپورٹ کے مطابق فارن پالیسی کی ایک تجزیہ کار’’رولا جبریل‘‘ نے وائس آف امریکہ کے ساتھ ایک انٹریو میں کہا کہ جمال خاشقچی کے ترکی کے شہر استنبول میں موجود سعودی قونصل خانے میں جانے کے ایک ہفتے بعد بھی اُن کی گمشدگی ایک معمہ بنی ہوئی ہے وہ اپنی ترک منگیتر سے شادی کرنے سے قبل سابقہ بیوی کو طلاق دینے سے متعلق دستاویزات مکمل کرنے کیلئے سعودی قونصل خانے گئے تھے اُن کا سیل فون اُن کی ترک منگیتر کے پاس تھا اور وہ قونصل خانے کے باہر انتظار کر رہی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ کلوزڈ سرکٹ کیمروں سے دیکھا جا سکتا ہے کہ خاشقچی قونصل خانے کے اندر داخل ہوئے تھے تاہم اُن کے باہر نکلنے کی کوئی ریکارڈنگ موجود نہیں ہےپھر بھی سعودی حکومت اس بات کی تردید کرتی ہے کہ اُن کی گمشدگی میں اُس کا کوئی ہاتھ تھا۔
انہوں نے کہا کہ اگر اس رپورٹ کی تصدیق ہو جاتی ہے کہ خاشقجی کو ترکی میں سعودی قونصل خانے کے اندر ہلاک کیا گیا تھا تو امریکہ کو چاہئیے کہ وہ سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فروخت بند کر دے اور اُس کے ساتھ تعلقات کا ازسرنو جائزہ لے۔
انہوں نے ترک پولیس کا مؤقف بیان کرتے ہوئےکہا کہ پولیس کے بقولاُنہیں قتل کر کے اُن کی لاش کی بے حرمتی کی گئی پولیس کا یہ بھی کہنا ہے کہ قونصل خانے سے کچھ ڈبے باہر نکالے گئے اور پولیس کو شبہ ہے کہ اُن ڈبوں میں خاشقجی کی لاش تھی اگرچہ ترکی کی پولیس دعویٰ کرتی ہے کہ خاشقجی کو قتل کر دیا گیا تھا تاہم اُس کے اس دعوے کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
موصوف تجزیہ کار نے کہا کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اس بات پر سخت غصے میں تھے کہ خاشقجی کو اپنے تنقیدی کالموں کیلئے واشنگٹن پوسٹ جیسا نمایاں پلیٹ فارم میسر تھااور اگر اُن کے قتل کی خبریں درست ثابت ہوتی ہیں تو مغربی ممالک کو سعودی تیل خریدنا بند کر دینا چاہئیے اور سعوی ولی عہد اور دیگر سعودی حکمرانوں کے اثاثے منجمد کر دینے چاہئیں۔
ادھر عالمی میڈیا سے متعلق امریکی ادارےیو ایس اے جی ایم کے چیف اگزیکٹو افسر اور ڈائریکٹر جان ایف لینسنگ نے سعودی صحافی اور واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار جمال خاشقچی کے اچانک لاپتا ہوجانے پر شدید اظہار تشویش کرتے ہوئے کہا ہے کہ بدقسمتی سے یہ واقع پریس کے خلاف بڑھتے ہوئے خطرات کے عالمی رویے کا ایک حصہ ہے محض سچ کے اظہار پر مبنی خبریں جاری کرنے پر آئے دِن اُن کی زندگیوں اور روزگار کو خطرہ لاحق رہتا ہے۔
جان لینسنگ نے کہا کہ دنیا بھر کی بدعنوان اور جابر حکومتوں کا یہ عام شیوہ ہے کہ وہ اطلاعات کو کنٹرول کرنے اور آزادی ابلاغ کو دبانے کی خواہش پر عمل پیرا رہتی ہیں اسی لیے وہ آزاد صحافیوں سے خوفزدہ رہتے ہیں اور اکثر اُن کے ناگزیر کام کو ناجائز قرار دیتے ہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ کسی کو بھی خاص طور پر حکومتوں کو صحافیوں کو خاموش کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیئے۔