خاشقچی نے کہا تھا کہ سعودیہ ولی عہد اسے قتل کرنا چاہتا ہے
امریکی اخبار نیویارکر کی تجزیہ نگار:
خاشقچی نے کہا تھا کہ سعودیہ ولی عہد اسے قتل کرنا چاہتا ہے
نیوزنور09 اکتوبر:ممتاز امریکی صحافی نے سعودی منتقد "جمال خاشقچی" کے بارے میں ایک تفصیلی مراسلے میں لکھا خاشقچی نے کہا تھا کہ سعودیہ ولی عہد اسے قتل کرنا چاہتا ہے۔
عالمی اردو خبررساں ادارے نیوزنور کی رپورٹ کے مطابق امریکی خارجہ پالیسی کے تجربہ نگار صحافی نے"کیا سعودیہ والوں نے جمال خاشقچی کو مار ڈالا "کے زیر عنوان اپنے مراسلے میں اس بات کی خبر دی کہ سعودیہ کے اس منتقد نے اس کے ساتھ ایک گفتگو کے دوران محمد بن سلمان کو ظالم قرار دیا تھا اور خاشقچی کو قتل کئے جانے کے حوالے سے شک کی انگلی کو سعودیہ کی طرف کردی ہے۔
رابن رایٹ نے "نیویورکر" میں لکھا ہے :میں آخری بار اگست کے مہینے میں جمال خاشقچی سے ملی ہوں۔ اسے قتل کئے جانے کا خدشہ لاحق تھا۔ سابقہ سعودیہ حکومت کا مشیر اور حاکم بادشاہ کی سیاست کا یہ 59 سالہ معارض نقاد اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ حاکم بادشاہ اور نیا لیڈر اسے قتل کرنا چاہتا ہے۔ اس نے مجھ سے کہا:"وہ مجھے زندہ نہیں دیکھنا چاہتے ہیں"۔ اس نے اس سے پہلے بھی مجھ سے ایسا کہا جبکہ وہ اس وقت امریکہ میں ایک سال سے زائد عرصے سے امریکہ میں جلای وطنی کی زندگی گزا رہا تھا اس لئے مجھے لگا کہ وہ اپنی جان کے خطرے کے حوالے سے مبالغہ آرائی کرتا ہے، لیکن شاید ایسا نہیں تھا۔
جب سے استانبول میں 2 اکتوبر کو خاشقی سعودیہ کنسلیٹ دوسری شادی کے لئے طلاق کا سرکاری تائید نامہ لینے گیا تب سے کسی نے اس کو نہیں دیکھا۔ اسکی منگیتر سعودیہ کونسلیٹ کے باہر 11 گھنٹے انتظار کرتی رہی اس نے کہا کہ وہ پھر وہاں سے باہر نہیں آیا۔
امریکی صحافی نے مزید لکھا ہے کہ :"اس حادثے کو گزرے 5 دن ہو گئے اور اس کے زندہ ہونے کا کوئی بھی ثبوت موجود نہیں ہے اور حقوق انسانی کے بین الاقوامی اداروں نے خاشقچی کے لاپتہ ہونے کے بارے میں طرح طرح کے دعوی کررہے ہیں۔ اتوار7 اکتوبر کو ترکی کے صدر جمھوریہ رجب طیب اردوغان کے مشیر یاسین آکتای نے رویٹرز کو کہا کہ ترکی کا ماننا ہے کہ خاشقچی کو سعودیہ کونسلیٹ میں قتل کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خاشقچی کے لاپتہ ہونے میں 15 سعودیہ باشندے ملوث ہیں۔ اردوغان نے صحافیوں کے ساتھ اس حوالے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کی حکومت اس حادثے کے بارے میں تحقیق کررہی ہے۔ انہوں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا"سفارتخانے اور آئیر پورٹ کے داخلے اور خروجی کی سی سی فوٹیجز کی تحقیق ہو رہی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ جلد از جلد نتیجے تک پہنچ جائیں"۔ امریکی وزارت خارجہ نے بھی اعلان کردیا کہ اس موضوع سے متعلق حالات اور خبروں پر قریب سے نظر بنائے رکھے ہوئے ہیں۔ خاشقچی کے ترکی کے ایک ساتھی نے اتوار7 اکتوبر کو صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا؛ ترکی حکومت نے ان سے کہا ہے کہ اپنے آپ کو خاشقچی کی تدفین کے لئے تیار کرنا۔
رایٹ نے مذید لکھا ہے کہ: ترکی کے عربی ذرائع ابلاغ کے سربراہ توران قیشلاقچی نے ایسوشیٹڈ پریس سے کہا؛خاشقچی کو بڑی بے رحمی سے قتل کرکے اس کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے ہیں۔ ایک اور رپورٹ میں انہوں نے دعوی کیا ہے کہ اس کی نعش کو سعودی عرب لوٹا دیا گیا ہے۔
اس تجزیہ نگار نے مزید لکھا ہے: " خاشقچی سعودی عرب کی پادشاہت کی بڑی آواز رہی ہے۔ میں کئی دہائیوں سے اس کو جانتی ہوں۔ وہ سعودیہ کے پادشاہوں کا وفادار اور غیر ملکی ذرائع کے لئے سعودی بادشاہت کی فہم و فراصت کو سمجھنے کے لئے معتبر ذریعہ تھا۔ خاشقچی سعودیہ کے اخبار "الوطن" کے مدیر اعلی رہ چکے ہیں نیز ایک ٹی وی چینل کے سربراہ رہے ہیں لیکن آئے دن پہلے سے زیادہ سعودی حکومت کے نقاد بن گئے تھے یہاں تک کہ جون 2017 میں ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا ۔ جلاوطنی کے دوران بھی آیندہ بادشاہت کے حوالے بحثوں میں تاثیر گزار تھے اور ٹیوٹر پر انکے 1 کروڑ 70 لاکھ فالور تھے اور بین الاقوامی تبصروں سے متعلق واشنگٹن پوسٹ میں ایک مخصوص کالم ان کے اختیار میں تھا اور مسلسل بین الاقوامی چینلوں پر حاضر ہوتے تھے"
رایٹ کا ماننا ہے کہ،"خاشقچی کے لاپتہ ہونے کی عجیب و غریب گھتی کے کئی سنجیدہ پہلو ہیں جو کہ محمد بن سلمان کے ولیعہد بنائے جانے سے پیدا ہو گئے ہیں، ایسا جوان کہ جسے زیادہ تر ایم بی ایس کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ اصلاحات کا حامی کے طور یہ تینتیس سالہ جوان مشہور ہوا ہے لیکن اس کی حکومت تاجروں اور دوسرے شاہزادوں کواجتماعی طور قید کرنے اور حقوق انسانی کے لئے کام کرنے والی جیسی عورتوں کو سزای موت دیے جانے کا حکم صادر کرنے اور اسی طرح انتہا پسندی کے مخالف علماء کے خلاف کاروائی آئے دن بیرحمانہ رہا ہے"۔
مشرق وسطی(مغربی ایشیاء) کے لئے ھیومن رایٹس واچ کی اجرایی مدیر سارا لیا ویٹسن نے نیویارکر سے بات کرتے ہوئے کہا:"سعودی عرب میں اجتماعی کارکنوں، مصنفوں،عالموں، مفکروں اور تاجروں کو تحت نظر رکھے جانے پر سعودیہ کا دعوی پیش کئے جانے کے موضوع سے ہٹ کرخاشقچی کو ظاہری طور پر لاپتہ کیا جانا ان تمام حملات کا نمونہ ہے کہ جس کے بارے میں سعودیہ کوئی قانونی جواز بہانہ نہیں تراش سکتا ہے"۔
حقوق انسانی کی اس سرگرم کارکن کے مطابق عورتوں کے حقوق کی سرگرم کارکن"لجین الھذول" صاحبہ کو حراست میں لینے سے سعودی عرب میں بڑتے کارزار اور ارعاب افکنی کو بخوبی دیکھا جا سکتا ہے، ایسی عورت جو کہ عرب دنیا کی 100 قدرتمند خواتین کی فہرست میں تیسرے نمبر پر ہے۔
آگے چل کےاس مراسلے میں بی بی سی کی رپورٹ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جس میں کہا گیا ہے کہ 2015 کے آغاز اور محمد بن سلمان کے باپ شاہ سلمان کی بادشاہت شروع ہونے کے ساتھ ہی تین سعودی شاہزادے لاپتہ کئے گئے ہیں۔
مغربی ایشیا/مشرق وسطی کیلئے دیدبان حقوق بشر(ہیومن رائٹس واچ) کی اجرایی مدیر کا ماننا ہے ، ایسی کاروائیوں سے سعودی عرب کے ولیعہد کی ماہیت معمر قذافی جیسی لگتی ہے اور اس سے بڑ کر یہ ملک کے اندر اور باہر سعودیوں کے لئے پیغام ہے کہ:اپنے منہ بند رکھو نہیں تو تمہارے جان کی خیر نہیں ،کوئی بھی قانون تمہاری حفاظت نہیں کر سکتا ہے ۔
امریکی ممتاز صحافی نے اسی طرح اپنے مراسلے میں خبر دی ہے: "میں نےاتوار(7اکتوبر) کو سعودی وزیر خارجہ کو جو کہ واشنگٹن میں جب جوان سفارتکار تھا میری ہمسایگی میں رہتا تھا ایمیل بھیجا۔ میں نے اپنے ایمیل میں اس سے خاشقچی کے بارے میں سوال کیا لیکن اس نے جواب نہیں دیا"۔
اس رپورٹ میں اگے آیا ہے :سعودی عرب کے مسائل کے ماہرین کواس ملک کے اندر رعب و وحشت قائم کرنے کی حکمت عملی کا ایک منحوس نمونہ ہونے کا خدشہ ہے ۔ سی آئی اے ، پنٹاگن اور امریکی قومی سلامتی کے سابقہ رکن "بروس ریڈل" جوکہ آج کل بروکینگز فاونڈیشن میں کام کرتا ہے نے مجھ سے کہا:"جمال(خاشقچی) کو لاپتہ کیا جانا مخالفوں اور تنقید کرنے والوں کو خاموش کرنے کیلئے رعب و وحشت قائم کئے جانے والی حکمت عملی سے ملتا جلتا ہے"۔
نیویارکر کے لئے مراسلات لکھنے والی کے مطابق ، خاشقچی نے اس کے ساتھ آخری گفتگو میں کہا تھا کہ سعودی ولیعہد تنقید برداشت نہیں کرتا اگرچہ وہ بادشاہی کے صف میں کھڑا ہے لیکن عملی طور وہ ایسی کاروائیاں کرتا ہے گویا وہ ملک کا رھبر ہے۔خاشقچی کے مطابق بن سلمان ابھی تک سعودیہ کے چھے بادشاہوں سے سعودیہ کے بانی بادشاہ ابن سعود کے موت سے لے کر1954 سے لے کر ابتک سب سے زیادہ خود سر اور زیادہ ظالم رہا ہے۔
اس ممتاز امریکی صحافی نے آگے لکھا ہے:"جب 2015 میں اس کا باپ بادشاہ بنا ، محمد بن سلمان نے 5 کلیدی طاقتور شعبوں پر تسلط جمالیا اور وہ وزیر دفاع، حال ہی میں قائم شدہ شورای اقتصادی کا صدر اور سلطنتی عدالت کا صدر ہے"۔
رابین رایٹ کے مطابق ، خاشقچی نے اگست کے مہینے میں اس کے ساتھ ملاقات میں کہا:(محمد بن سلمان) بہت ہی خود سر ہے اور بلکل لبرل نہیں ہے۔ میں نے 4 یا 5 سال حکومت کے لئے کام کیا ہے ،کبھی بھی نہیں سوچا تھا کہ مجھے حراست میں لیا جائے گا لیکن پھر ذہن میں بات آئی کہ ہوسکتا ہے کہ مجھے بھی جیل بھیجا جائے گا اور اسی لئے ملک چھوڑ دیا"۔
رایٹ نے اپنے مراسلے کواشنگٹن پوسٹ میں چھپے خاشقچی کی تحریر کے ساتھ مکمل کیا ہے۔
اس امریکی تجزیہ نگار نے لکھا:خاشقچی نے واشنگٹن پوسٹ میں ستمبر2017 میں اپنی ابتدائی تحریروں میں سےایک میں لکھا سعودی حکومت کو آئینہ دکھانے اور تنقید کرنے کا مرحلہ شروع ہونے میں بڑی مدت لگ گئی۔ اس نے اپنے مراسلے میں لکھا:"کئی سال پہلے جب میرے کئی دوستوں کو حراست میں لیا گیا ، میرے لئے انتہائی تکلیف دہ تھا لیکن میں نے کچھ بھی نہیں کیا کیونکہ میں اپنی نوکری اور اپنی آزادی نہیں کھونا چاہتا تھا اور میں اپنے گھر والوں کے لئے پریشان تھا لیکن اب تو ایک مختلف فیصلہ کر لیا۔ میں نے اپنے وطن، دوستوں اور نوکری کو چھوڑ دیا اور اپنی آواز اونچا کرنے میں لگا ہوں۔ اگر اس کے بغیر کچھ اور کروں تو وہ جیلوں میں سڑ رہے لوگوں کے ساتھ خیانت ہو گی۔ میں ایسے میں بات کررہا ہوں جبکہ بہت سارے اپنی زبان کھول نہیں سکتے ۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ سمجھ جائیں سعودیہ ہمیشہ ایسا نہیں تھا جیسا کہ اب ہے۔ ہم سعودی والے اس سے بہتر حالات کے حقدار ہیں"۔
تکمیل/عحم