نیوزنور newsnoor

نیوزنور بین الاقوامی تحلیلی اردو خبررساں ادارہ

نیوزنور newsnoor

نیوزنور بین الاقوامی تحلیلی اردو خبررساں ادارہ

نیوزنور newsnoor
موضوعات
محبوب ترین مضامین
تازہ ترین تبصرے
  • ۱۱ ژانویه ۱۹، ۱۴:۱۱ - گروه مالی آموزشی برادران فرازی
    خیلی جالب بود


عبد الباری اطون:

 نیوزنوریکم اکتوبر/ایک عرب تجزیہ کار و رائے الیوم کے مدیر اعلیٰ نے کہا ہے کہ امریکہ میں ڈونالڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد سعودی عرب نے امریکی عرب اسلامک کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں ٹرمپ کی موجودگی میں عرب نیٹو تشکیل دینے کا نظریہ پیش کیا گیا ۔

عالمی اردو خبررساں ادارے’’نیوزنور‘‘کی رپورٹ کے مطابق کہنہ مشق تجزیہ کار و رائے الیوم کے مدیر اعلیٰ ’’عبد الباری اطوان نےعرب ذرائع ابلاغ کے ساتھ انٹریو میں کہا کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ وہ امریکی عرب نیٹو تشکیل دینے کا ارادہ رکھتے ہیں اور ان کے اس اشارے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس اتحاد کی تشکیل پیشکش اور نظریے کے مرحلے سے نکل کر ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ  یہ اتحاد چھ خلیجی عرب ممالک، مصر اور اردن کے درمیان تشکیل پانا ہے جس کا مقصد مشرق وسطٰی  کےخطے میں ایران کا مقابلہ کرنا اور امریکی مفادات کا دفاع کرنا ہے۔

انہوں نے متحدہ عرب امارات کے انگلش زبان میں ابوظہبی سے شائع ہونے والے اخبار ’نیشنل‘ جو اس ملک کے ولیعہد شیخ محمد بن زاید کا حمایت یافتہ تصور کیا جاتا ہے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مشرق وسطی کے امور میں امریکی نائب وزیر خارجہ لیڈر کنگ گذشتہ تین ہفتوں کے دوران اس نئے اسٹریٹجک اتحاد کے اصولوں کے تعین اور واشنگٹن میں نئے سال کے آغاز پر مذکورہ بالا آٹھ ممالک کے سربراہی اجلاس میں سرکاری طور پر اس کے اعلان کے مقدمات فراہم کر رہے ہیں۔

موصوف تجزیہ کار نے کہا کہ امریکہ میں ڈونالڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد سعودی عرب نے امریکی عرب اسلامک کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں ٹرمپ کی موجودگی میں عرب نیٹوتشکیل دینے کا نظریہ پیش کیا گیا تھااور اب یہ طے پایا ہے کہ اس نئے تشکیل پانے والے مشرق وسطٰی اسٹریٹجک اتحاد یا MESA (Middle East Strategic Alliance) کا مرکزی دفتر بھی ریاض میں ہی ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ اس اتحاد کی تشکیل کا مقصد مشرق وسطٰی اور عرب دنیا میں جغرافیائی، نسلی اور قومی تقسیم پیدا کرنا ہے اور جغرافیائی اعتبار سے یہ اتحاد عرب دنیا کے مشرقی حصے کو مغربی حصے یا شمالی افریقہ سے علحیٰدہ کر دے گااور اسی طرح آٹھ سنی ممالک کو ایران کی مرکزیت میں تشکیل پانے والے اسلامی مقاومتی بلاک کے مقابلے میں لا کھڑا کرے گا جبکہ یہ عرب ممالک اپنے اتحاد کو شیعہ مخالف فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ عرب نیٹو یا مشرق وسطٰی اسٹریٹجک اتحاد میں شامل آٹھ عرب ممالک میں اب تک مختلف ایشوز جیسے یمن جنگ، قطر اور خلیجی عرب ریاستوں کے درمیان پیدا ہونے والے تنازعہ یا ایران سے درپیش خطرات کے بارے میں اتفاق رائے نہیں پایا جاتاکیونکہ  خلیج تعاون کونسل میں شامل تین ممالک کویت، قطر اور عمان کا مؤقف یہ ہے کہ انہیں ایران سے کسی قسم کا کوئی خطرہ درپیش نہیں لہذا ان ممالک نے حال ہی میں اہواز میں ہونے والے دہشتگردانہ حملے کی مذمت بھی کی ہےلیکن باقی تین عرب ممالک نے براہ راست یا سوشل میڈیا کے ذریعے اس دہشتگردانہ حملے کی حمایت کی ہےاور یمن جنگ کے بارے میں بھی یہی صورتحال ہےجہاں ان ممالک کے مؤقف میں اختلاف بہت واضح ہے۔

موصوف مدیر اعلیٰ نے سوالیہ انداز میں کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایران سے دشمنی اور خطے میں امریکی مفادات کا تحفظ جیسے خام تیل کی قیمت میں کمی اس نئے اتحاد کے بنیادی ارکان ہیں لیکن کیا یہ ارکان اس اتحاد کی مضبوطی اور اس کی بقا کیلئے کافی ہیں؟اس اتحاد میں اسرائیل کی جگہ کہاں ہے؟ اور اس اتحاد کے رکن عرب ممالک کا اسرائیل کے بارے میں کیا مؤقف ہے؟ کیا یہ ممالک مکمل طور پر عرب اسرائیل تنازعے سے باہر نکل چکے ہیں؟ کیا اسرائیل اس اتحاد کا خفیہ رکن ہو گا اور کب اس کی رکنیت منظرعام پر لائی جائے گی؟اور دیگر عالمی طاقتوں جیسے روس اور چین اس اسٹریٹجک اتحاد کے بارے میں کیا مؤقف اختیار کریں گے؟ مشرق وسطی کے دیگر بڑے ممالک جیسے ترکی اور پاکستان کا اس بارے میں کیا مؤقف ہو گا؟ جبکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ٹرمپ حکومت کے ساتھ ان دو ممالک کے تعلقات  اگرکہیں نہ کہیں کشیدگی کے عروج پر پہنچ چکے ہیں تو کم از کم تیزی سے بگڑ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ افسوس اس بات پر ہے کہ عرب ممالک کے سیاسی ماہرین اور معروف شخصیات اس بارے میں خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں عرب نیٹو نامی تشکیل پانے والا اتحاد ہمارے ذہن میں بغداد معاہدے کی یاد تازہ کر دیتا ہے اس وقت ایسی شخصیات موجود تھیں جنہوں نے بغداد معاہدے کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اس کے خلاف عوام کا شور اُجاگر کر کے اسے ناکام بنا دیالیکن مشرق وسطٰی اسٹریٹجک اتحاد کے مقابلے میں عرب دنیا سے کوئی آواز اُٹھتی سنائی نہیں دے رہی۔

انہوں نے ایران کے خلاف امریکی دشمنی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ دو مقاصد کے حصول کیلئے ایران پر دباو ڈال رہا ہے پہلا مقصد ایران کو مذاکرات اور سازباز پر مجبور کرنا ہے اور اس میں ناکامی کی صورت میں دوسرے مقصد یعنی ایران میں حکمفرما نظام کی تبدیلی کے درپے ہےاور سوال یہ ہے کہ عرب نیٹو کے رکن ممالک ان دو امریکی اہداف کے حصول میں کیا کردار ادا کریں گے؟ کیا مستقبل میں کس قسم کا امریکی ایرانی راہ حل ان کے فائدے میں رہے گا؟

انہوں نے کہا کہ عرب نیٹو میں اردن کی شمولیت اس کیلئے کن فوائد کی حامل ہو گی؟  کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ اب تک ہمیشہ اردن کو نظرانداز کیا گیا ہے اور خلیج تعاون کونسل میں اس کے دوست ممالک نے اپنی ساری مالی امداد روک رکھی ہے اور اردن میں خانہ جنگی کی فضا پیدا کر دی گئی ہے اوراردن اپنے دوستوں کی اس بے وفائی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال پر قابو پانے کیلئے اقتصادی محنت کی پالیسی اپنانے پر مجبور ہو گیا ہےتو  کیا اردن اس اسٹریٹجک اتحاد میں شامل ہو کر اپنی فوج، سرزمین، سیکورٹی اور استحکام مفت میں انہیں بخش دے گا؟ عرب نیٹو میں شمولیت کے نتیجے میں اردن کو مالی اور اقتصادی فائدوں کے بغیر کن سیکورٹی اور فوجی ذمہ داریوں کو ادا کرنا ہو گا؟

عبد الباری اطوان نے مزید کہا کہ امریکی عرب نیٹو اتحاد ایک اہم سیکورٹی اور فوجی اتحاد ہے جس کی تشکیل کی صورت میں ہمارے خطے اور ہماری قوم کو تباہی کا تحفہ ملے گااور یہ اتحاد ایسے وقت تشکیل پا رہا ہے جب عرب قومیں انتہائی کمزور حالت میں ہیں اور تقریباً نابودی کے دہانے پر ہیں اور 400 ملین عرب باشندوں سے ایسا رویہ اپنایا جا رہا ہے گویا وہ  اپنا کوئی وجود ہی نہیں رکھتے۔

نظرات  (۰)

ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں لکھا گیا ہے
ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی