نیوزنور newsnoor

نیوزنور بین الاقوامی تحلیلی اردو خبررساں ادارہ

نیوزنور newsnoor

نیوزنور بین الاقوامی تحلیلی اردو خبررساں ادارہ

نیوزنور newsnoor
موضوعات
محبوب ترین مضامین
تازہ ترین تبصرے
  • ۱۱ ژانویه ۱۹، ۱۴:۱۱ - گروه مالی آموزشی برادران فرازی
    خیلی جالب بود

نیوزنور:علامہ شرف الدین موضوع کی شناخت والی  وحدت پر اپنی نگاہ میں اس کی  واقعیت اور ماہیت کو ایک ایسی حالت میں دیکھتے تھے جو سرتا پا خیر ، صلاح اور مصلحت سے مملو ہوتی ہے ، اس کے مقابلے میں مسلمانوں کے تفرقے کی ماہیت کو فساد شکست اور پسماندگی قرار دیتے تھے ۔ چنانچہ اس منطق کے مطابق وہ تفرقہ انگیز عوامل کو مفسدین کے زمرے میں شمار کرتے تھے ۔

شیعہ سنی اتحاد و یکجہتی کے  بارے میں علّامہ شرف الدین کا فقہی نقطہ نظر

نیوزنور:علامہ شرف الدین موضوع کی شناخت والی  وحدت پر اپنی نگاہ میں اس کی  واقعیت اور ماہیت کو ایک ایسی حالت میں دیکھتے تھے جو سرتا پا خیر ، صلاح اور مصلحت سے مملو ہوتی ہے ، اس کے مقابلے میں مسلمانوں کے تفرقے کی ماہیت کو فساد شکست اور پسماندگی قرار دیتے تھے ۔ چنانچہ اس منطق کے مطابق وہ تفرقہ انگیز عوامل کو مفسدین کے زمرے میں شمار کرتے تھے ۔

عالمی اردو خبررساں ادارے نیوزنور کی رپورٹ کے مطابق ایران کے ایک معروف محقق آیت اللہ احمد مبلغی نے شیعہ سنی اتحاد کے عظیم داعی لبنان کے حضرت علّامہ سید عبدالحسین موسوی شرف الدین  قدس سرہ کا شیعہ سنی اتحاد و یکجہتی کے  حوالے علّامہ کا فقہی نقطہ نظریہ پیش کیا ہے اور نیوزنور کیلئے نے جسے اردو کے قالب  میں تیار کیا ہے۔

اسلامی مسالک کے درمیان جو اتحاد کی بات کی جاتی ہے وہ غالبا ایک نصیحت اور موعظے کے قالب میں کہی جاتی ہے، جب کہ اس قالب میں اتحاد کی بات کیے جانے سے سماج کے اندر اس کے تحقق پذیر ہونے اور معاشرے کے اجتماعی نشیب و فراز میں اس کے فعال اور مستمر طریقے سے پائے جانے کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس مشکل کا حل کیا ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اتحاد اور وحدت کو فقہ کے زاویہء نگاہ سے پیش کیا جائے ۔ یہ وہ میدان ہے کہ جس میں رہتے ہوئے مختلف  میں مذاہب سب سے زیادہ الزام آور اور سنجیدہ ترین نظریات کو ہمیشہ مانا جاتا رہا ہے یا اس میدان میں ان کے مانے جانے کا راستہ ہموار ہوتا رہا ہے ۔ اتحاد کو فقہی میدان میں لانے سے ہی اسلامی مسالک کے اندرونی تعلقات اور اسلامی مسالک کی مشترکہ تاریخ کے پنپنے کا راستہ ہموار ہوتا ہے ۔ اتحاد کے میدان میں نگاہوں کے امتیاز اور اصلاح کرنے والے فقہاء کی جدو جہدوں کو اس چیز میں تلاش کرنا چاہیے کہ غیر فقیہ مصلحین نے اگر چہ اسلامی اتحاد کی ضرورت کی گہرائی کو  محسوس کیا ، لیکن انتہائی پریکٹیکل اور حساس مواقع پر ان کی باتیں اس حساس مقولے کے بارے میں صرف آشنائی اور اس کی شناخت کے راستے ہموار کرنے سے زیادہ اور کچھ نہیں کر پائیں ، جب کہ اصلاح کرنے والے فقہاء اتحاد  کی ضرورت و اہمیت  کے بارے میں آشنائی دینے اور آگاہی پیدا کرنے کے علاوہ اس پر عمل کرنے کی راہ میں جو مشکلات ہوتی ہیں ان کو برطرف کرنے میں بھی اثر انداز ہوتے ہیں ۔ اگر ہم اس بات کو مان لیں کہ اتحاد کے وجود میں آنے کی راہ میں جو مشکلات ہیں ان میں زیادہ تر کا تعلق ان ابہامات سے ہے کہ جو فقہی معنی میں اس کے سلسلے میں پائے جاتے ہیں تو ہم فقہ وحدت اور وحدت فقہی کی سطح پر کامیابی کی ایک واضح تصویر  دیکھ پائیں گے ۔

وحدت پر شرف الدین کی نگاہ کی گہرائی میں فقہ اور استنباط کے بہت سارے عناصر کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے ۔

وحدت کے حکم شرعی کو معلوم کرنے کے لیے اس کے موضوع کو تشکیل دینے والی چیزوں ، اس کے عناصر ، اس کی حدود اور اس کے قلمرو کی تعیین  اس راہ میں پہلا قدم شمار ہوتے ہیں ۔ اس بات کو ماننا پڑے گا کہ بہت سارے مواقع پر صرف چند گوشوں اور چند پرتوں والے موضوعات کا یکجا ہو جانا فقیہ کے لیے موضوع شناسی کے پلیٹ فارم سے حکم کے استنباط کی پٹری کی طرف منتقل ہونے  کی ضمانت فراہم کر سکتا ہے ۔ اس لیے کہ منطقی اعتبار سے موضوع کی صحیح شناخت کا وجود میں آنا فقیہ کے درک عمیق ، اس کی سطح عقلانیت اور فکرو نگاہ کی گہرائی اور گیرائی کا نتیجہ ہوتا ہے اور یہ چیز زمانے کے مقتضیات سے وجود میں آتی ہے ۔بلا شک اتحاد جیسے موجوع کو جو چیزیں وجود میں لاتی ہیں کہ جو اجتماعی موجودات اور اشیاء کے لیے ثقافتی ، اقتصادی اور سیاسی پہلووں میں ان کے ایک میدان کا کام کرتی ہیں وہ ہمارے تصور کی حد سے کہیں بڑھ کر ہیں اور دوسرے موضوعات کے مقابلے میں زمانے کے تقاضوں سے ان کا تعلق زیادہ گہرا ہے ۔

شرف الدین کی نگاہ کا یہ عمیق اور چند پرتوں والا ادراک وحدت کے موضوع کے بارے میں ہے ۔ درج ذیل تین محور اتحاد کی ماہیت اور اس کے عناصر کے بارے میں اس علامہء بزرگ کی نگاہ کو آشکار کرتے ہیں :

الف : وحدت کی ماہیت صلاح اور تفرقے کی ماہیت فساد ہے،

  علامہ شرف الدین موضوع کی شناخت والی  وحدت پر اپنی نگاہ میں اس کی  واقعیت اور ماہیت کو ایک ایسی حالت میں دیکھتے تھے جو سرتا پا خیر ، صلاح اور مصلحت سے مملو ہوتی ہے ، اس کے مقابلے میں مسلمانوں کے تفرقے کی ماہیت کو فساد شکست اور پسماندگی قرار دیتے تھے ۔ چنانچہ اس منطق کے مطابق وہ تفرقہ انگیز عوامل کو مفسدین کے زمرے میں شمار کرتے تھے ۔

وہ کہتے ہیں :

«منینا بقوم همهم تفریق المسلمین ودأبهم بث العداوة بین الموحدین (وهم یحسبون أنهم یحسنون صنعا ألا إنهم هم المفسدون ولکن لایشعرون».(الفصول المهمة/44)

نیز ان کا کہنا ہے :

(إن هذا التدابر بینهم عبث محض, وسفه صرف بل فساد فی الارض, وإهلاک للحرث والنسل).

ب۔ شیعہ اور سنی کے درمیان اتحاد اپنے اصلی عقاید سے دست بردار ہوئے بغیر ممکن ہے ؛

مختلف وجوہات کی بنا پر اپنے اصلی عقاید سے دست بردار ہونا باقی رہنے والے اور بنیادی اتحاد کے لیے ضروری نہیں ہے ۔ شرف الدین کی نظر میں اتحاد کی بنیادیں اخلاقی ابتدائی توافق پر استوار ہونے سے زیادہ مشترکہ افہام و تفہیم یا کم سے کم تقریب افہام پر استوار ہیں ۔اس کے علاوہ اس چیز کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ بعض مذہبی تعلیمات کے سلسلے میں خاموشی اختیار کرنا کہ جو اتحاد کے منفی طرز عمل کی بنا پر ہوتا ہے مذاہب کا دائمی اور آخری انتخاب نہیں ہو سکتا۔ اس لیے کہ ان میں سے بہت ساری تعلیمات معمولا ہر مذہب کی بنیادی تعلیمات ہوتی ہیں جو اس مذہب کو دوسرے مذاہب سے ممتاز کرتی ہیں ان کے سلسلے میں سکوت اور خاموشی کی حکمت عملی اختیار کرنا ایک عملی روش کے طور پر شاید مختصر مدت کے لیے اختلافات کی سطح کو کم کرنے کے لیے غنیمت ہو اور قابل قدر ہو لیکن واقعیت  یہ ہے کہ اگر اس روش کے سلسلے میں زیادہ تاکید کی جائے اور یہ ایک تاریخی الزام اور وجوب میں بدل جائے تو آخر کار یہ اتحاد کے مسئلے سے آگے بڑھ کر کسی بھی مذہب کی اصلیت پر حملہ ہو گا اس لیے کہ اس کی وجہ سے مذہب کی کچھ اصلی چیزیں تحت الشعاع میں چلی جائیں گی اور ان کو عملی طریقہ بنانے سے ان کے سلسلے میں نظری ابحاث تاریکی کے گوشے میں گم ہو جائیں گی ۔

ج ۔ وحدت کے لیے سنیوں کے واقعی اقوال کا لحاظ کرنا چاہیے نہ کہ متعصبین کی شدت پسندی کا،

تاریخ میں سنیوں شیعوں دونوں نے اپنے اپنے طور پر تجربے کیے ہیں ، لیکن ان تجربوں کے ساتھ ہی کچھ ایسے تجربے بھی کیے  جن کا تعلق ان کی مشترکہ زندگی سے تھا دونوں قسم کے تجربوں کے محصول کو بعض مواقع پر ارتکازی صورت میں قبول کیا گیا ہے اور سنیوں اور شیعوں دونوں کو ان تجربوں نے خوش کیا ہے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں سے کچھ رفتاروں اور سلوکوں کو بعد کے ادوار میں نظری اور اعتقادی لحاظ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ، لیکن وہ ذہنوں میں تہہ نشین ہوکر عام لوگوں کے اذہان میں اسی طرح باقی رہے ، اور اگرچہ وہ ذہنی تصریحات کی صورت میں باقی نہیں رہے لیکن روش عقیدے اور رفتار پر اپنا اثر ڈالتے رہے ہیں ۔

مثال کے طور پر اہلبیت کے موضوع کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے ۔ یہ کہ تاریخ میں اہل بیت کا کیا مقام تھا اور اب ان کا کیا مقام ہے ، تو یہ چیز ذہنوں میں جو موجود ہے اس کے مطالعے کا منبع ہو سکتی ہے ۔ یقینا اہل بیت کا مفہوم اسلامی ادبیات کے لیے اجنبی موضوع نہیں ہے ، یہ کہ یہ لفظ اور اس طرح کے دوسرے الفاظ اہل ماضی کے ذہنوں میں عقیدے اور ذہنی وجود کے لحاظ سے کس مقام پر تھے ، اور اس کا آج کی حالت اور فعلی  علمی تصریحات سے مقایسہ ۔ چونکہ یقینا جو کچھ آج ہے اس میں اور جو پہلے سے ذہنوں میں مرتکز ہے اس میں بعض لحاظات سے تفکیک کا قایل ہونا پڑے گا ۔ بہت بڑی علمی قدروں  کا حامل ہے ۔ وہ علمی قدریں جو اس دور کے عقیدے کی تشکیل کی راہ میں تبدیلی کی نوعیت اور دگرگونی کی روش کو روشن تر اور تصریح شدہ صورت میں واضح کرتی ہیں ۔

مرحوم شرف الدین نے اس دقیق  اور عالمانہ مبنا کے دائرے میں علمائے اہل سنت کی توجہ کو ان کی تاریخ کے ان حصوں کی طرف کہ جن کو شدت پسندوں نے تیار کیا ہے مبذول کیا ہے اور انہیں دکھایا ہے کہ کس طرح ان حرکتوں نے سنیوں کے  واقعی مرتکزات کی سرحدوں کو توڑا ہے اور توقع سے زیادہ اس چیز نے کام کیا ہے ۔ مثال کے طور پر مرحوم شرف الدین نے اہل سنت کے ایک عالم کی قضاوت پر توجہ دلائی ہے کہ جس نے اہل بیت علیہم السلام اور ان کے مکتب کو بدعت قرار دیا ؛ بلا شک اس قسم کی بات نہ صرف اہل سنت کی بے شمار روایات کے خلاف ہے بلکہ اہل بیت ع کے سلسلے میں جو ان کا مذہبی نظریہ ہے اس کے ساتھ بھی سازگار نہیں ہے ۔ لیکن بہر قیمت واقعیت یہ ہے کہ اس مسئلے کو اہل سنت کے درمیان ان کے شدت پسندوں نے پیش کیا ہے اور منفی فضا ایجاد کی ہے ۔ ( النص و الاجتہاد /۵۳۹ )


نظرات  (۰)

ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں لکھا گیا ہے
ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی