نیوزنور newsnoor

نیوزنور بین الاقوامی تحلیلی اردو خبررساں ادارہ

نیوزنور newsnoor

نیوزنور بین الاقوامی تحلیلی اردو خبررساں ادارہ

نیوزنور newsnoor
موضوعات
محبوب ترین مضامین
تازہ ترین تبصرے
  • ۱۱ ژانویه ۱۹، ۱۴:۱۱ - گروه مالی آموزشی برادران فرازی
    خیلی جالب بود

نیوزنور: علی ابن الحسین امام زین العابدین علیہ السلام کی امامت کادور تاریخ کا ایک سب سے تاریک دور تھا یہاں تک کہ محققین تاریخ نے آپ علیہ السلام کی امامت کے دور کو ، اسلامی ثقافت کے زوال کے دور کے نام سے یاد کیا ہے ۔

آخری نبی (ص) کے چوتھے وصی  امام زین العابدین (ع) کی سیرت میں بصیرت آفرینی 

نیوزنور: علی ابن الحسین امام زین العابدین علیہ السلام کی امامت کادور تاریخ کا ایک سب سے تاریک دور تھا یہاں تک کہ محققین تاریخ نے آپ علیہ السلام کی امامت کے دور کو ، اسلامی ثقافت کے زوال کے دور کے نام سے یاد کیا ہے ۔

عالمی اردو خبررساں ادارے نیوزنور کی رپورٹ کے مطابق  ایسے دور میں جب اموی حکام خدا پرستی کے مقابلے میں دنیا پرستی کی تبلیغ کرتے تھے ، نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چوتھے وصی امام المومنین وارث المرسلین و حجت رب العالمین علی ابن الحسین زین العابدین علیہ السلام وادیء عبادت میں گم ہو کر خدا کو محور بنانے کی اصل کو لوگوں کے ذہنوں میں متمرکز کر رہے تھے ، اور خدا ئے یکتاکی عبادت کی خوبصورتی اور شکوہمندی  کو نمایاں کر رہے تھے ۔

آغاز سخن ،

خاتم النبین رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانشینی کی چوتھی کڑی اور عرش عصمت و طہارت کے چھٹے ستارے امام المومنین و وارث المرسلین و حجت رب العالمین حضرت علی ابن الحسین زین العابدین علیہ السلام کہ جو ایک قول کی بنا پر پانچ شعبان المعظم سال ۳۸ ہجری میں مدینے میں متولد ہوئے تھے (۱)

آپ علیہ السلام کی ولادت کے دو سال بعد خاتم النبین رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانشینی کی پہلی کڑی اور عرش عصمت و طہارت کے دوسرے ستارے امیرالمومنین و وارث المرسلین و حجت رب العالمین اور آپ کے دادا حضرت علی علیہ السلام محراب عبادت میں درجہء شہادت پر فائز ہو گئے ،رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پہلے وصی  امیرالمومنین کی شہادت کے بعد دس سال تک آپ نے خاتم النبین رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانشینی کی دوسری کڑی اور عرش عصمت و طہارت کے چوتھے ستارے امام المومنین و وارث المرسلین و حجت رب العالمین اور اپنے عمو حضرت  حسن بن علی علیہما السلام کی امامت کے دور کے واقعات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ۔سال پچاس ہجری سے ۱۱ سال کی مدت تک انہوں نے خاتم النبین رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانشینی کی تیسری کڑی اور عرش عصمت و طہارت کے پانچویں ستارے امام المومنین و وارث المرسلین و حجت رب العالمین اور اپنے والد بزرگوار   حضرت حسین بن علی علیہما السلام کی امامت کے نشیب  و فراز کو دیکھا کہ جو معاویہ بن ابوسفیان اور اس کے بیٹے یزید کی قدرت طلبی کے مقارن تھا ، اور محرم الحرام سال ۶۱ ہجری میں امام حسین علیہ السلام کے قیام اور ان کی شہادت کے بعد اسلامی دنیا کی امامت و زعامت کی ذمہ داری آپ کے دوش مبارک پر آگئی (۲)

امام زین العابدین علیہ السلام کی امامت کادور تاریخ کا ایک سب سے تاریک دور تھا یہاں تک کہ محققین تاریخ نے آنحضرت علیہ السلام کی امامت کے دور کو ، اسلامی ثقافت کے زوال کے دور کے نام سے یاد کیا ہے ۔(۳) یہ دور جو ۳۴ سال تک چلا ، اس دور میں بنی امیہ کے سات حکمرانوں نے حکومت کی اور آخر کار محرم الحرام سال ۹۴ ہجری میں اور ایک قول کے مطابق سال ۹۵ ہجری میں آپ علیہ السلام نے مدینہء منورہ میں رحلت فرمائی ۔ (۴) اور آپ کے پیکر مبارک کو بقیع میں رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دوسرے وصی اور آپ کے  عمو امام حسن علیہ السلام کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا ۔

امام علی ابن الحسین علیہ السلام پر اپنی امامت کے دور میں کڑی پابندیاں تھیں ۔ ستمگر اموی حکام نے اپنے منحوس سائے کو اسلامی ممالک کے اوپر پھیلایا ہوا تھا ، اس کے باوجود آپ نے بہترین روش اختیار کرتے ہوئے انقلاب عاشوراء کی ثقافت اور اس کے قیمتی نتائج سے آشنائی کے ساتھ مناسب ترین صورت میں اس کی پاسداری کرنے میں کامیابی حاصل کی اور کربلا کے انقلاب آفرینوں کے راستے پر چلتے رہے ۔ اسی فتنے کے ان تمام برسوں میں کہ جب لوگ بصیرت کی نعمت سے محروم تھے آپ نے جہالت کے کالے بادلوں کو افکار کے آسمان سے دور کرنے میں کامیابی حاصل کی ، اور آفتاب حقیقت کو اسلامی سرزمین پر روشن کیا اور راہ امامت کے راہیوں کو ہدایت کی بلند ترین چوٹی تک پہنچایا ۔

اسلامی معاشرے کی بیداری ،

معاویہ نے اپنی سلطنت کے چالیس سال میں جس قدر ہو سکا  رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے اہل بیت  اور قرآن ناطق علیہم السلام کے خلاف منفی پروپیگنڈا کیا ۔لیکن امام حسین علیہ السلام نے اپنے  عاشوراء سال ۶۱ ہجری کے قیام کے ذریعے ان تمام چیزوں پر کہ جو اس نے چالیس سال کے عرصے میں حاصل کی تھیں خط بطلان کے ذریعےانہیں محو کر دیا ۔ امام زین العابدین علیہ السلام نے بھی اموی خلافت کے مرکز میں اس کو رسوا کیا اور شام  اور دوسرے تمام شہروں کے فریب خوردہ اور گمراہ لوگوں کو بیدار کیا اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت اور منزلت کو نمایاں کیا ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ امام زین العابدین علیہ السلام کی روشن سازیوں نے کربلا کے المناک حادثے کے بعد اس عظیم اسلامی تحریک کو زندہ رکھنے میں نمایاں کردار ادا کیا ۔

سید الساجدین نے کوفے کے شہر میں اپنا تعارف کروانے  اور امویوں کے جرائم کو بے نقاب  کرنے کے بعد فرمایا: اے لوگو ! کیا تم لوگوں نے میرے باپ کو خط لکھے تھے اور  اس کے بعد بے وفائی نہیں کی ؟ کیا ان کے ساتھ عہد و پیمان کر کے ان کے خلاف جنگ نہیں کی اور ان کو شہید نہیں کیا ؟ آپ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کیا مونہہ دکھاو گے کہ جب وہ پوچھیں گے کہ تم نے میرے فرزند کو قتل کیا اور میرے احترام کا پاس و لحاظ نہیں کیا ، پس تم میری امت میں سے نہیں ہو ......۔ (۵)

انقلاب عاشوراء کو زندہ رکھنا،

سید  الشہداء امام حسین علیہ السلام  اور ان کے اصحاب باوفا کی شہادت نے حکام بنی امیہ اور بنی عباس کی حکومتوں کے جائز اور مشروع ہونے پر سوالیہ نشان لگا دیا ۔ امام زین العابدین  علیہ السلام شہیدان نینوی پر گریہ کر کے اور ان کی جانثاری کی یاد کو زندہ رکھ کے شہیدان کربلا کے مقصد کی تکمیل کی کوشش کرتے تھے  اور لوگوں کے اذہان میں شہدائے کربلا کی مظلومیت کو اجاگر کر تے تھے ۔ آپ نے اپنی امامت کے ۳۴ سال  کے دوران آگاہی کی روش کو اختیار کرتے ہوئے لوگوں کی بصیرت میں اضافہ کیا اور اس روش کو اس وقت تک جاری رکھا کہ ان کو تاریخ کے پانچ سب سے زیادہ رونے والوں میں شمار کیا جانے لگا (۶)

 آپ ہمیشہ کربلا کے جانگداز مصائب کو یاد کرتے تھے اور فرماتے تھے : آپ لوگ مجھ پر ملامت نہ کریں یعقوب نے اپنا صرف ایک فرزند کھویا تھا تو اس کے بعد اس قدر روئے کہ غم کی شدت سے ان کی آنکھیں سفید ہو گئیں ؛ جب کہ ان کو اپنے فرزند کی موت کا یقین نہیں تھا لیکن میں نے تو بھری دوپہر میں اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ میرے گھر کے چودہ افراد کے سر  قلم کر دیے گئے (۷)

نیز آپ فرماتے تھے : ہر مومن کہ جو معرفت کے ساتھ امام حسین علیہ السلام  کی مظلومانہ شہادت پر روئے خدا بہشت میں اس کے لیے غرفے سجاتا ہے اور وہ ہمیشہ ان میں رہے گا (۸)

رسولخدا صلی اللہ علیہ و آلہ کی سنت کا احیاء ،

اسلام عدالت اور دینی برابری کا منادی ہے اور تمام انسان پروردگار کے نزدیک یکساں مقام کے حامل ہیں اور خدا کے نزدیک سب سے زیادہ باعزت وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہے (۹) جب خلیفہء دوم کو خلافت ملی تو اس نے عربوں کو غیر عربوں پر اورکچھ قبایل کو دوسرے قبایل پر ترجیح دی اور اس چیز نے اس وقت کے اسلامی معاشرے کے اندر  طبقاتی دراڑ پیدا کردی ۔ مثلا امویوں کی حکومت کے زمانے میں موالی یعنی ایرانی نسل کے مسلمان عربی سرزمینوں میں باعزت پیشہ اختیار نہیں کر سکتے تھے ۔ وہ ہتھیار بنانے اور گھوڑے پر سوار ہونے کا حق نہیں رکھتے تھے ۔ جنگی غنیمت میں ان کا کوئی حصہ نہیں تھا اور وہ یہ سوچتے تھے کہ انہیں عربوں کی خدمت کرنے کے لیے پیدا کیا گیا ہے (۱۰) حتی امام سجاد علیہ السلام کی امامت کے دور میں مدینے کے حکمران ابراہیم ابن ھشام نے ایک موالی کو ایک عرب عورت کے ساتھ شادی کرنے کے جرم کی سزا میں دو سو کوڑے لگائے اس کے بعد اس کے سر اس کی داڑھی اور اس کے ابرووں کو منڈوا دیا اور اس سے عورت کا طلاق لے لیا ۔ (۱۱)

ایسے زمانے میں سید الساجدین علیہ السلام نے نبی آخر الزمان رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فراموش شدہ سنت کو زندہ کرنے کی کوشش کی اور بنی امیہ کی تمام غلط رسومات کو ٹھوکر مار کر اسلامی ثقافت کو تباہی اور نابودی کے بھنور سے نجات دلائی ۔ آپ ہر سال بہت سارے غلاموں اور بہت ساری کنیزوں کو خریدتے تھے اور مختلف بہانوں سے آزاد کر دیتے تھے ۔چونکہ آپ کسی مکتب کی بنیاد ڈال کر علی الاعلان تربیت کا کام نہیں کر سکتے تھے تو غلاموں کو اپنے فرزند کہتے تھے اور یا بنیی کہہ کر پکارتے تھے اور اس روش کے ذریعے غلاموں کو اسلامی اخلاق کا درس دیتے تھے ۔ آپ ان چیزوں کے علاوہ ایک مستقل اور عزت دار زندگی کے لیے ضروری سامان ان کو مہیا کرتے تھے (۱۲)

اہل بیت اور قرآن ناطق علیہم السلام کی پہچان کرانا ،

امویوں کی اہل بیت اور قرآن ناطق علیھم السلام کے سلسلے میں غلط تبلیغات کے مقابلے میں ، آپ دعا میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ اور ان کی آل پر درود کو شامل کرتے تھے تا کہ اس طرح یہ کہا جا سکے کہ پیغمر ص کے حقیقی جانشین خاندان عصمت و طہارت کے افراد ہیں ۔ آنحضرت ایک دعا میں فرماتے ہیں : " فَصَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ الطَّیِّبِینَ الطَّاهِرِینَ الْأَخْیَارِ الْأَنْجَبِینَ " (۱۳) خدایا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کی آل پر درود بھیج اس لیے کہ وہ نیک سرشت ، پاکیزہ ، برگزیدہ اور نجیب ہیں ۔

جب اسیران اہل بیت علیھم السلام شام میں داخل ہوئے تو ایک بوڑھا امام زین العابدین علیہ السلام کے سامنے آن کھڑا ہوا اور بولا : خدا کا شکر کہ اس نے آپ کو قتل کیا اور لوگوں کو آپ کے شر سے بچایا اور امیر المومنین یزید کو آپ کے خلاف کامیابی دی ۔ سید الساجدین علیہ السلام خاموش رہے یہاں تک کہ اس نے اپنے دل کی بھڑاس نکال لی ۔ اس کے بعد آپ علیہ السلام نے اس سے پوچھا : کیا تو نے قرآن پڑھا ہے ؟ کہا ہاں ! فرمایا اس آیت کو پہچانتے ہو ؟ «قُل لَّا أَسْأَلُکُمْ عَلَیْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَی» (۱۴) کہا ہاں ! امام نے فرمایا : اے مرد ضعیف ! ہم وہی قرابتدار ہیں ۔ اس کے بعد آپ علیہ السلام نے پوچھا : کیا تو نے اس آیت کو پڑھا ہے ؟ کہ جس میں خدا نے فرمایا ہے : «وَ اعْلَمُوا أَنَّما غَنِمْتُمْ مِنْ شَیْ ءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَ لِلرَّسُولِ وَ لِذِی الْقُرْبی» (۱۵) اس نے کہا ، ہاں ! امام نے فرمایا : ہم وہی" وَ لِذِی الْقُرْبی " ہیں ،  امام نے ایک بار پھر پوچھا : کیا تو نے اس آیت کی تلاوت کی ہے ؟ «إِنَّما یُریدُ اللَّهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَکُمْ تَطْهیراً» (۱۶) بوڑھے نے جواب دیا اس آیت کو بھی پڑھا ہے امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا : ہم وہی" أَهْلَ الْبَیْت " ہیں  کہ خدا نے آیہء تطہیر کو خاص ہمارے لیے نازل کیا ہے ، وہ بوڑھا خاموش ہو گیا اور جو بات اس نے کہی تھی اس پر بہت شرمندہ ہوا ۔ اس کے بعد اس نے امام علیہ السلام سے پوچھا کہ آیا  میری توبہ کی کوئی گنجائش ہے ؟ امام علیہ السلام نے فرمایا : ہاں اگر تم توبہ کرو تو خدا تمہاری توبہ قبول کرے گا اور تو ہمارے ساتھ ہو گا۔ جب اس شامی اور  امام کی گفتگو کی خبر یزید کو ملی تو اس نے حکم دیا کہ اس بوڑھے کو شہید کردیں ۔

اسی طرح شام کی مسجد اموی میں امام علیہ السلام کی تقریر نے لوگوں کو اہل بیت  اور قرآن ناطق علیھم السلام کے فضائل و مناقب سے آگاہ کیا ۔ جب یزید نے لوگوں کے اصرار پر امام سجاد علیہ السلام کو اجازت دی کہ وہ منبر پر جائیں تو آپ نے پروردگار کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا : اے لوگو ! خدا نے  محمد و آل محمد کو ایسی خوبیاں عطا کی ہیں اور ایسی فضیلتیں کہ جن کے ذریعے اس نے ہمیں دوسروں پر برتری عطا کی ہے ۔ خدا نے ہمیں علم ، حلم ، سخاوت ، فصاحت ، شجاعت ، اور مومنوں کے دلوں میں چھپی ہوئی محبت سے نوازا ہے ، اورآل محمد کے فضائل یہ ہیں کہ رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،امیرالمومنین علی علیہ السلام، جعفر طیار ،خدا اور اسکے رسول کا شیر حضرت حمزہ ، اور اس امت کے دو سبط امام حسن اور امام حسین علیھما السلام ہم میں سے ہیں ۔(۱۷)حضرت نے اس کے بعد رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تعارف پیش کرنا شروع کیا اور فرمایا : میں اس بزرگوار کا فرزند ہوں کہ جس نے حجر اسود کو اپنی عبا پر اٹھایا ، اور جس کو معراج کی شب مسجد الحرام سے مسجد اقصی تک لیجایا گیا ، میں اس کا فرزند ہوں کہ جس نے سرکشوں کی ناک زمین پر رگڑی ، تا کہ وہ کلمہء توحید کا ا قرار کریں ۔ میں اس کا فرزند ہوں کہ جو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ دو تلواروں سے لڑتا تھا اور جس نے دو بار ہجرت کی ، اور جنگ بدر و حنین میں جس نے کافروں کے ساتھ جنگ کی ۔ سید الساجدین علیہ السلام نے امامت و رسالت کے شجرہ نامے کے تعارف میں اس قدر داد سخن دی کہ لوگوں کے رونے کی آواز بلند ہو گئی ۔ یزید کو خوف محسوس ہوا اس نے موذن سے کہا کہ اذان دے ۔ جب موذن «أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً رَسوُلُ الله» پر پہنچا  تو امام نے منبر کے اوپر سے یزید کو مخاطب کیا  اور فرمایا : کیا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے جد ہیں یا تمہارے ؟ اگر کہو گے کہ تمہارے جد ہیں تو جھوٹ ہوگا اور حق کا انکار ہوگا، اور اگر کہو گے کہ میرے جد ہیں تو تم نے کیوں ان کے فرزندوں کو قتل کیا ہے ؟؟؟ (۱۸) مسجد میں جو شامی موجود تھے اور امویوں کی غلط تبلیغات کی بنا پر جہالت کی وادی میں بھٹک رہے تھے اور رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان کو نہیں جانتے تھے ، حضرت کے پر بار اور روشنی بخش بیانات سے ان کو آگاہی مل گئی ۔

شجاعانہ دفاع ،

امام سجاد علیہ السلام جب بھی محسوس کرتے تھے  کہ دشمن قیام عاشوراء کی حقانیت کو باطل بنا کر پیش کرنا چاہتا ہے  تو دندان شکن اور منطقی جواب دے کر اس کو رد کر دیتے تھے ۔ حضرت کی شجاعت و بہادری کے اوج کو عبید اللہ ابن زیاد اور یزید کے دربار میں دیکھا جا سکتا ہے ۔ جب عبید اللہ نے امام علیہ السلام کو دیکھا اور پوچھا کہ یہ کون ہے ؟ تو جواب ملا کہ علی ابن الحسین علیہ السلام ہیں ، تو اس نے کہا : آیا علی ابن الحسین (علیہ السلام) کو خدا نے قتل نہیں کیا ؟ امام علیہ السلام نے جواب دیا : علی نام کا میرا ایک بھائی تھا جس کو لوگوں نے شہید کر دیا ۔ عبید اللہ نے کہا : نہیں خدا نے اس کو قتل کیا ہے ۔ امام سجاد علیہ السلام نے اس آیہء کریمہ کی تلاوت کی" اللَّهُ یَتَوَفَّی الْأَنفُسَ حِینَ مَوْتِهَا " ؛ (۱۹) خدا موت کے وقت لوگوں کی روحیں قبض کرتا ہے ، ابن زیاد امام  علیہ السلام کے بے خوف جواب سے غصے سے بھنا اٹھا اور امام علیہ السلام کو قتل کر دینے کا حکم صادر کر دیا ۔لیکن امام علیہ السلام نے بے مثل بہادری کے ساتھ جواب دیا ؛" أبالقتل تهددنی یابن زیاد اما علمت ان القتل لنا عاده و کرامتنا الشهاده " (۲۰) اے زیاد کے بچے ! کیا مجھے قتل کی دھمکی سے ڈراتے ہو جب کہ تو نہیں جانتا کہ قتل ہونا ہماری عادت ہے اور شہادت ہمارے لیے کرامت ہے ؟!

آنحضرت زیاد کی مجلس میں اس  کے باوجود کہ اسیر تھے آپ نے کوئی بات یا کوئی حرکت ایسی نہیں کی جس سے ناتوانی اور ذلت کا احساس ہوتا ہو ، بلکہ ایک با شہامت آزاد انسان کی طرح حسینی عزت و افتخار کا مظاہرہ کیا ۔ جب یزید نے خاندان  نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رسوا کرنے کے لیے قیدیوں کو اپنے دربار میں بلایا تھا تو اس نے امام سجاد علیہ السلام سے خطاب کرتے ہوئے کہا : تم نے دیکھا کہ خدا نے تمہارے باپ کے ساتھ کیا کیا ؟ حضرت نے فرمایا : ہم نے قضای الہی کے سوا کہ جس کا حکم زمین و آسمان میں چلتا ہے کچھ نہیں دیکھا ۔ یزید نے کہا : کیا تم اس کے بیٹے ہو کہ جسے خدا نے قتل کیا ؟ امام علیہ السلام نے فرمایا : میں علی اس کا فرزند ہوں کہ تو نے جسے قتل کیا ہے اس کے بعد حضرت نے اس آیت کی تلاوت کی :" وَمَن یَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِیهَا وَغَضِبَ اللّهُ عَلَیْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِیمًا " (۲۱) جو کوئی کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے اس کی سزا جہنم ہے اور وہ ہمیشہ اس میں رہے گا اور خدا اس پر غضبناک ہو گا اور اس کو اپنی رحمت سے دور کر دے گا اور اس نے اس کے لیے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔

یزید جب اس منطقی اور دندان شکن جواب کو برداشت نہیں کر سکا تو غیض و غضب میں آ کر اس نے امام علیہ السلام کے قتل کا حکم صادر کر دیا ، لیکن امام زین العابدین علیہ السلام نے بہادری اور پختگی کے ساتھ فرمایا : آزاد شدہ قیدیوں کے فرزند کبھی بھی انبیاء اور اوصیاء کے قتل کا حکم صادر نہیں کر سکتے  صرف اس وقت کہ جب وہ دین اسلام سے خارج ہو چکے ہوں ۔ (۲۲)

روحانیت کی بارش ،

امام زین العابدین علیہ السلام نے دنیا پسندی کی موج کا مقابلہ کرنے اور جاہلیت کے آداب و رسوم  سے روکنے  کے لیےمعاشرے میں روحانیت کے منادی کا کردار ادا کیا ، اور اپنی رفتاری اور عملی سیرت میں لوگوں کو خدا  اور خالص اسلامی تعلیمات کی طرف دعوت دیتے تھے ۔

اس زمانے میں کہ جب اموی حکام خدا پرستی کے بجائے دنیا پرستی کی تبلیغ کرتے تھے ، امام زین العابدین علیہ السلام  عبادت کی وادی میں سیر و سلوک کے ذریعے لوگوں کو خدا محوری کی اصل سے آشنا کرتے تھے اور خدائے یکتا کی عبادت کی خوبصورتی اور اس کے شکوہ  کو لوگوں پر ظاہر کرتے تھے ۔ آنحضرت عبادت کو لوگوں کی گردن پر خدا کا سب سے بڑا حق مانتے تھے اور فرماتے تھے : خدا کا سب سے بڑا حق یہ ہے کہ تم اس کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ بناو ۔ اگر اس کام کو اخلاص کے ساتھ انجام دو تو دنیا و آخرت سے جو کچھ بھی چاہو گے وہ تمہیں دے دے گا (۲۳)

نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پانچویں وصی امام المومنین وارث المرسلین و حجت رب العالمین امام محمد باقر علیہ السلام  اپنے والد علی ابن الحسین زین العابدین علیہ السلام کی عبادت کے بارے میں فرماتے تھے کہ کوئی شخص بھی ویسی عبادت نہیں کر سکتا ۔ شب بیداری کی وجہ سے آپ کا رنگ زرد پڑ گیا تھا روتے روتے آنکھیں سرخ ہو چکی تھیں سجدوں کی کثرت سے پیشانی ابھر چکی تھی اور قیام کی وجہ سے پاوں ورم کر چکے تھے ۔ (۲۴)

امام سجاد علیہ السلام میدان عبادت میں اس قدر کوشش کرتے تھے کہ جب امیر المومنین علی علیہ السلام کی بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیھا نے اپنے بھائی کے فرزند کی اس طاقت فرسا کوشش اور بغیر وقفے کے عبادت کو دیکھا تو آپ کو ان کی سلامتی کا خطرہ لاحق ہو گیا آپ نے جابر ابن عبد اللہ انصاری سے مدد کرنے کو کہا  تا کہ عبادت کی راہ میں جو حضرت اس قدر سختی برداشت کر رہے ہیں اسے کم کر دیں (۲۵)

امام سجاد علیہ السلام کی یہ خصوصیت اس قدر نمایاں تھی کہ دیگر مذاہب کے علماء نے آپ علیہ السلام کی تعریف کی ہے ، چنانچہ اہل سنت کے چار مسالک میں سے مسلک مالکی  کے امام  مالک ابن انس نے کہا ہے : مجھے پتہ چلا ہے کہ علی ابن الحسین شب و روز میں ایک ہزار رکعت نماز پڑھتے ہیں اور یہ سلسلہ ان کی وفات کے زمانے تک چلتا رہا ۔ (۲۶)

ظلم کے خلاف انقلابات کی حمایت ،

عاشوراء کے انقلاب نے شیعوں کو انفعالی حالت سے خارج کیا اور اس مسلک کی سیاسی ۔ اجتماعی زندگی میں نئی روح پھونکے جانے کا باعث بنا۔لیکن سجاد علیہ السلام امام حسین علیہ السلام کے تنہا فرزند تھےکہ جو بیماری کی وجہ سے کربلا کی جنگ میں شریک نہیں ہو سکے ۔ انہوں نے اپنی  امامت کے دور میں دوسرے وصی رسول اللہ اور اپنے عمو امام حسن مجتبی علیہ السلام کی سیاست کو جاری رکھا اور جہاں تک ممکن ہوا ہر طرح کی جنگ سے اجتناب کیا ۔

آنحضرت نے اپنی سیرت میں دفاعی سیاست اختیار کی اور جہاد کو زیادہ تر ثقافت اور عقیدے کے قالب میں جاری رکھا اور براہ راست دشمن  سے الجھے بغیر ان کی کوشش تھی کہ اموی حکومت کی بنیادوں کو کمزور کیا جائے ۔ علی ابن الحسین علیہ السلام  تیسرے وصی رسول اللہ اوراپنے والد امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد ۳۴ سال زندہ رہے لیکن  آپ نے منفی جہادی سیاست سے عدول نہیں کیا تا کہ یہ بتا سکیں کہ آپ اپنے باپ کی میراث کے امین ہیں (۲۷)

مسلمانوں نے آپ علیہ السلام کی بصیرت افروز اور بیدار کن تقریروں سے متائثر ہو کر  طاغوت کے خلاف جنگ کے جذبات کو عوامی تحریکوں کے قالب میں متجلی کیا اور خود خواہ  اور ہوس پرست اموی حکام کے خلاف لوگوں نے متعدد بار قیام کیا  کہ جن میں تین قیام مشہور ترین ہیں  جو "قیام توابین" ، "قیام مختار" اور "مدینے کے لوگوں کے قیام "کے نام سے تاریخ میں مشہور ہیں ۔ امام سجاد علیہ السلام کا اگر چہ ظاہر میں حکام کے استبداد اور گھٹن کا ماحول ہونے کی وجہ سے ان قیاموں میں کوئی ہاتھ نہیں تھا اور آپ تقیہ کی حالت میں تھے ،لیکن ان قیاموں کے رہبروں سے عملی طور پر راضی تھے اور ان کی تائیید کرتے تھے ۔

نقل کیا گیا ہے کہ اہل بیت علیہم السلام کے کچھ چاہنے والے رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پہلے وصی امیرالمومنین علی علیہ السلام کے فرزند اور امام زین العابدین علیہ السلام کے چچا"محمد حنفیہ" کے پاس گئے اور اعلان کیا کہ "مختار ثقفی" نے کوفہ میں قیام کیا ہے اور ہمیں مدد کی دعوت دی ہے ، لیکن ہم نہیں جانتے کہ یہ شخص اہل بیت  علیہم السلام کی طرف سے تائیید شدہ ہے یا نہیں ۔ محمد حنفیہ نے ان کے جواب میں کہا : ہم امام زین العابدین علیہ السلام کے پاس چلتے ہیں اور ان سے اپنی ذمہ داری کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔ جب انہوں نے یہ بات امام علیہ السلام کو بتائی تو آنحضرت نے فرمایا :

اے چچا ! اگر ایک غلام ہمارے خون کا انتقام لینے کی لوگوں کو دعوت دیتا ہے تو سب پر واجب ہے کہ اس کی مدد کریں ، اور میں آپ کو اس کام میں اپنا نمایندہ بناتا ہوں ، آپ کو جو مناسب لگے وہ کریں ۔ اس طرح اس گروہ نے محمد حنفیہ کی وساطت سے امام علیہ السلام  سےجہاد کا اذن لے لیا اور مختار ثقفی کے ساتھ جا ملے (۲۸)

نصیحت اور ہدایت ،

اوصیای رسولخدا اورامامت کا یہ چوتھا چراغ لوگوں کو موعظہ اور ہدایت کے ذریعے خالص اسلامی تعلیمات سے آشنا کرتا تھا ، اور ایک مہربان باپ کی طرح ان کو ظلمت اور تباہی کے گرداب میں پھنسنے سے بچاتا تھا اور راہ امامت و ولایت کے راہیوں کے لیے تابناک سورج کی مانند ہدایت اور نجات کے راستے کو منور کرتا تھا ۔ ان میں سے بعض مواعظ اور ہدایات وہ ہیں جو جمعات کے دنوں میں مسجدالنبی میں وقوع پذیر ہوتے تھے ۔ آنحضرت کے دیگر اقوال اور ان کی تقریریں اپنے خاص شیعوں اور ماننے والوں کے مجمعوں میں ہوتی تھیں ۔ اور ان کو ان کے ابو حمزہ جیسے اصحاب نے نقل کیا ہے ۔

ان کے علاوہ آپ علیہ السلام حضوری طور پر یا خطوط کے قالب میں فقہاء محدثین اور درباری قاضیوں کو پند و نصیحت کرتے تھے اور ان کو حق کی پیروی کی دعوت دیتے تھے (۲۹) مثلا ایک دلسوزانہ خط میں عبد الملک ابن مروان کے دربار کے فقیہ اور محدث" زہری" کو آپ نے اس کام کی عاقبت سے آگاہ کیا اور اس سے کہا کہ گمراہی سے باز آجائے اور سیدھے راستے کو اختیار کرے ۔ امام علیہ السلام اس خط کے ایک اقتباس میں فرماتے ہیں ؛ بچو کہ تمہیں خطرے سے آگاہ کر دیا گیا ہے اور قدم بڑھاو اور عمل کرو کہ تمہیں مہلت دی گئی ہے ۔ جان لو کہ جس کے پاس تیرے اعمال کا حساب ہے وہ تجھ سے غافل نہیں ہے ۔ پس کوچ کے لیے تیار ہو جاو کہ تمہارے سامنے لمبا سفر ہے اور اپنے گناہوں کا علاج کرو ، اس لیے کہ تمہارا دل بہت بیمار ہو چکا ہے (۳۰)

 آنحضرت نے اس طریقے سے جو آگاہانہ اور حکیمانہ تھا لوگوں کی ہدایت کرنے کے ساتھ اسلامی افکار کو ان تک منتقل کیا اور اس روش سے آپ نے ظلم و ستم اور حکام کا مقابلہ کرنے کے لیے استفادہ کیا اور ساتھ ہی حکومت کی حساسیت کو بھی بر انگیختہ نہیں ہونے دیا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ علیہ السلام ایک مناسب ماحول میں اپنے بلند اہداف و مقاصد کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب ہوئے ۔

سازش کا شکار نہ ہونا ،

امام سجاد علیہ السلام دشمنوں کے مقابلے میں آگاہی پر مبنی روش اپناتے تھے اور ان سے ٹکراتے وقت ان کی جھوٹی شخصیت کا بھرم توڑ دیتے تھے ان کے جھوٹے وقار کر ختم کر دیتے تھے اور اس آیہء شریفہ کی بنیاد پر  " أَشِدَّاءُ عَلَى الْکُفَّار "عمل کرتے تھے ۔درج ذیل نمونہ حضرت کے دشمنوں کے ساتھ سلوک کا ایک زندہ نمونہ ہے :

عبد الملک ابن مروان کو پتہ چلا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شمشیر امام زین العابدین علیہ السلام کے پاس ہے اس نے سوچا کہ اپنے ناپاک مقاصد کو پورا کرنے اور اس شمشیر سے ناجائز فائدہ اٹھانے کے لیے حضرت سے وہ شمشیر لے لے ، اس نے ایک قاصد کو امام علیہ السلام کے پاس بھیجا اور تقاضا کیا کہ وہ شمشیر دے دیں ۔ اور خط کے آخر میں لکھا کہ اس کے بدلے میں آپ کا جو کام بھی ہو میں فورا انجام دونگا ۔ امام علیہ السلام نے عبد الملک کے مطالبے کو رد کر دیا ۔ وہ جابر حکمران سخت بر آشفتہ ہوا اور ایک دھمکی آمیز خط میں لکھا کہ اگر آپ نے شمشیر نہ بھیجی تو بیت المال سے آپ کی مستمری بند کر دی جائے گی ۔ امام علیہ السلام نے بغیر کسی خوف کے جواب میں لکھا : خدا نے خود ذمہ داری لی ہے کہ اپنے پرہیزگار بندوں کو ناپسندیدہ امور سے نجات دے گا اور جہاں سے انہیں گمان بھی نہیں ہو گا روزی دے گا قرآن میں فرماتا ہے : " إِنَّ اللَّهَ لَا یُحِبُّ کُلَّ خَوَّانٍ کَفُور" (۳۱) خدا کسی خیانتکار نا شکرے کو دوست نہیں رکھتا ، اس کے بعد عبد الملک کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا : اب دیکھ لو کہ ہم میں سے کون ایک اس آیت کا بہتر مصداق ہے ؟ (۳۲)

دعا کے قالب میں تربیت ،

وہ زمانہ جس میں امام زین العابدین علیہ السلام زندگی بسر کر رہے تھے ایک ایسا زمانہ تھا کہ جس میں تمام الہی قدروں کو امویوں نے بدل کر رکھ دیا تھا ، اور اسلامی حکام ، عبید اللہ ابن زیاد ، حجاج ابن یوسف ثقفی اور عبد الملک ابن مروان جیسے افراد کے ہاتھوں کا کھلونہ بن چکے تھے ، حجاج عبد الملک کو رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ اہم اور برتر مانتا تھا اور دینی نصوص کے بر خلاف مسلمانوں سے جزیہ لیتا تھا ، اور معمولی تہمت اور جھوٹ کی بنیاد پر لوگوں کو جلادوں کے حوالے کر دیتا تھا ۔

ایسی حکومت کے سائے میں معلوم ہے کہ  لوگوں کی دینی تربیت کس قدر تنزل کا شکار ہو گی اور جاہلی قدریں کس قدر زندہ ہوں گی ۔ (۳۳) اسی لیے امام سجاد علیہ السلام نے سیاسی دباو اور پابندیوں کو نظر میں رکھتے ہوئے ، دعا اور مناجات کو ایسی حالت کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک مناسب طریقے کے طور پر انتخاب کیا اور اس حکیمانہ روش سے اس معاشرے کو جو اخلاقی جمود کے عالم میں جی رہا تھا ، دوبارہ متحرک کیا اور لوگوں کے تاریک دل میں ایمان اور بصیرت کے نور کو زندہ کیا ۔

حضرت کی دعائیں کہ جو نہایت قیمتی کتابوں جیسے "صحیفہ سجادیہ" ، "مناجات خمسہ عشرہ "، "دعائے ابو حمزہ ثمالی"  ،"یومیہ دعائیں" اور "صحیفہ سجادیہ جامعہ" میں جمع کی گئی ہیں ، وہ ہر فکر و سماعت رکھنے والے عارف کے دل کو لرزا دیتی ہیں اور بلند و با شکوہ معانی پر توجہ وادی کمال و معرفت کے پیاسوں کو سیراب کرتی ہے ۔

سید الساجدین علیہ السلام نے ان دعاوں میں اعتقادی اور اخلاقی مسائل کو بیان کرنے کے علاوہ اہل بیت علیھم السلام کے مسلم حق  محوری کو کہ جس کو بنی امیہ نے غصب کر لیا تھا بیان کیا ہے تا کہ اس طریقے سے لوگوں کو موضوع سے آگاہ کریں کہ رسولخدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واقعی وصی و  جانشین کون لوگ ہیں ۔

آنحضرت نے صحیفہ سجادیہ کی دعا نمبر ۴۸ میں اوصیای رسولخدا اور شیعوں کے اماموں کے مرتبے اور ان کی مظلومیت کو بیان کیا ہے اور فرمایا ہے:" اللّهُمّ إِنّ هَذَا الْمَقَامَ لِخُلَفَائِکَ وَ أَصْفِیَائِکَ وَ مَوَاضِعَ أُمَنَائِکَ فِی الدّرَجَةِ الرّفِیعَةِ الّتِی اختَصَصْتَهُم بِهَا قَدِ ابْتَزّوهَا... حَتّی عَادَ صِفْوَتُکَ وَ خُلَفَاؤُکَ مَغْلُوبِینَ مَقهُورِینَ مُبْتَزّینَ" (۳۴) خدایا یہ مقام خلافت بلند درجے میں تیرے جانشینوں ، برگزیدہ بندوں اور امانتداروں کا ہے کہ تو نے خود یہ مقام انہیں عطا فرمایا ، لیکن غاصبوں نے اس کو چھین لیا ....۔ یہاں تک کہ تیرے برگزیدہ بندے اور خلفاء ستمگاروں کے ستم کے مقابلے میں مغلوب و مقہور ہو گئے اور ان کا حق برباد ہو گیا ۔

دوسرے مقام پر صحیفہء سجادیہ میں فرمایا :" رَبّ صَلّ عَلی اَطائِبِ أَهْلِ بَیْتِهِ، اَلَّذِینَ اختَرتَهُم لاَمرِکَ، وَ جَعَلْتَهُم خَزَنَةَ عِلْمِکَ، اَلَّذِینَ اخْتَرتَهُمْ لاَمْرِکَ، وَ جَعَلْتَهُمْ خَزَنَةَ عِلْمِکَ، وَ حَفَظَةَ دِینِکَ، وَ خُلَفاءَکَ فِی أَرْضِکَ، وَ حُجَجَکَ عَلی عِبادِکَ، وَ طَهَّرْتَهُمْ مِنَ الرِّجْسِ وَ الدَّنَسِ تَطْهِیراً بِإِرادَتِکَ، وَ جَعَلْتَهُمُ الوَسیلَةَ اِلیک و المَسلَک اِلی جَنَّتِک" (۳۵) پالنے والے !اہل بیت علیہم السلام کے پاک بندوں پر درود بھیج وہی کہ جن کو تو نے حکومت کے لیے منتخب کیا ، اور اپنے علم کے خزانے ، دین کے محافظ ، روئے زمین میں اپنے جانشین اور بندوں پر اپنی حجتیں قرار دیا اور انہیں اپنے ارادے سے ہر پلیدی اور آلودگی سے پاک و مبرا بنایا اور اپنے جاویدانی بہشت تک پہنچنے کا وسیلہ قرار دیا۔

اس کتاب کی دعاوں میں خدا شناسی ، عالم غیب ، پیغمبروں کی رسالت ، اہل بیت علیھم السلام کے مقام ، اور اخلاقی فضائل و رذائل اور اجتماعی اور اقتصادی مسائل کی جانب تاریخی  اشارے کیے گئے ہیں ۔ لہذا ان خالص تعلیمات پر عمل امامت و ولایت کے راستے پر چلنے والوں کو وادیء ہدایت و تربیت میں منزل مقصود تک پہنچا سکتا ہے اور ان کی آگاہی اور بصیرت میں اضافہ کر سکتا ہے ۔

حوالے ؛

·          ۱۔ کشف الغمہ فی معرفہ الائمہ ، ج۲ ص ۱۰۵ ،

·          ۲ ۔ الارشاد فی معرفہ حجج اللہ علی العباد ، ص ۲۵۳ ،

·          ۳ ۔ تاریخ الاسلام ، ج۱ ص ۱۳۵ ،

·          ۴ ۔ مروج الذھب ، ج۳ ص ۱۰ ،

·          ۵ ۔ الاحتجاج ، ج۲ ص ۳۲ ،

·          ۶ ۔ حضرت آدم ع حضرت نوح ع حضرت یعقوب ع حضرت فاطمہ س اور امام سجاد ع ،

·          ۷ ۔ امالی شیخ صدوق ، ص ۱۴۰ ،

·          ۸ ۔ ثواب الاعمال و عقاب الاعمال ،ص ۸۳ ،

·          ۹ ۔ سورہء حجرات آیت نمبر ۱۳ ،

·          ۱۰ ۔ تاریخ ابن خلکا ن ج۱ ص ۳۴۸ ،

·          ۱۱ ۔ وہی ص ۲۸۵ ،

·          ۱۲ ۔ فصلنامہء فرھنگ کوثر شمارہء ۵۷ ، بھار ۱۳۸۳ ص ۱۰۶ ،

·          ۱۳ ۔ صحیفہء سجادیہ ، دعا نمبر ۴۸ ص ۲۹۰ ،

·          ۱۴ ۔ سورہء شوری ، ۲۳

·          ۱۵ ۔ انفال ،۴۱ ،

·          ۱ ۔ احزاب ، ۳۳ ،

·          ۱۷ ۔ بحار الانوار ،ج۴۵ ص ۱۵۶ ،

·          ۱۸ ۔ وہی ، ص ۱۳۸ ۔ ۱۴۰ ،

·          ۱۹ ۔ سورہء زمر ، ۴۲ ،

·          ۲۰ ۔ گذشتہ ماخذ ،ص ۱۱۷ ،

·          ۲۱ ۔ نساء ۹۳ ،

·          ۲۲ ۔ شرح الاخبار فی فضائل الائمہ الاطھار ، ج ۳ ص ۲۵۳ ،

·          ۲۳ ۔ تھذیب الکمال فی اسماء الرجال ، ج۲ ص ۳۹۰ ،

·          ۲۴ ۔ مناقب ابن شہر آشوب ، ج۴ ص ۱۶۲ ،

·          ۲۵ ۔ بحار الانوار ، ج ۴۶ ص ۶۰ ،

·          ۲۶ ۔ تھذیب الکمال فی اسماء الرجال ، ج۲ ص ۳۹۰ ،

·          ۲۷ ۔ مروج الذھب، ج۳ ص۱۶۹ ،

·          ۲۸ ۔ معجم رجال الحدیث و تفصیل طبقات الرواۃ ، ج ۱۹ ص ۱۰۹ ،

·          ۲۹ ۔ تحف العقول ،ص۲۷۶ ،

·          ۳۰ ۔ ماہنامہء مبلغان شمارہء ۳۴ شعبان ۱۴۲۳ ھق ص ۲۷ ،

·          ۳۱ ۔ سورہء حج آیہء ۳۸ ،

·          ۳۲ ۔ بحار الانوار ، ج ۴۶ ،

·          ۳۳ ۔ حیات فکری و سیاسیء امامان شیعہ ص۲۶۰ ،

·          ۳۴ ۔ صحیفہء سجادیہ دعا ۴۸ ص ۲۹۴ ،

·          ۳۵ ۔ وہی ، دعا ۴۷ ص ۲۶۸ ،  


نظرات  (۱)

  • همیار رایانه
  • مطلب عالی  و مفیدی  بود .

    همیار رایانه پاسخگوی تلفنی سوالات ومشکلات رایانه ،  موبایل ،  نصب بازی  و سایر خدمات می باشد.

    شماره تماس  9099071728

    پاسخگویی به صورت شبانه روزی حتی ایام تعطیل.

    www.hamyarrayaneh.ir  سایت :

    برای آشنا شدن با آخرین اخبار فناوری به کانال ما بپیوندید.

    تلگرام :  https://t.me/HamyarRayaneh

    اینستاگرام :  https://instagram.com/_u/hamyarrayaneh

    سروش:   https://sapp/hamyarrayaneh
    ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
    شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
    <b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
    تجدید کد امنیتی