نیوزنور newsnoor

نیوزنور بین الاقوامی تحلیلی اردو خبررساں ادارہ

نیوزنور newsnoor

نیوزنور بین الاقوامی تحلیلی اردو خبررساں ادارہ

نیوزنور newsnoor
موضوعات
محبوب ترین مضامین
تازہ ترین تبصرے
  • ۱۱ ژانویه ۱۹، ۱۴:۱۱ - گروه مالی آموزشی برادران فرازی
    خیلی جالب بود

نیوزنور:امام زین العابدین علیہ السلام اگر چہ ظاہر میں ، ظالم حکمرانوں کی طرف سے شدید گھٹن اور جبر و استبداد کی وجہ سے ان تحریکوں  میں بالکل غیر جانبدار تھے  اور تقیہ میں زندگی گذار رہے تھے  لیکن حقیقت میں ان  تحریکوں کے رہنماوں سے راضی تھے اور عملا ان کی تائیید کرتے تھے ۔

امام زین العابدین ( ع) نے یوں حسینی تحریک کو دوام بخشا

نیوزنور:امام زین العابدین علیہ السلام اگر چہ ظاہر میں ، ظالم حکمرانوں کی طرف سے شدید گھٹن اور جبر و استبداد کی وجہ سے ان تحریکوں  میں بالکل غیر جانبدار تھے  اور تقیہ میں زندگی گذار رہے تھے  لیکن حقیقت میں ان  تحریکوں کے رہنماوں سے راضی تھے اور عملا ان کی تائیید کرتے تھے ۔

عالمی اردو خبررساں ادارے نیوزنور کی خصوصی رپورٹ؛نبی آخرالزمان حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چوتھے وصی اور شیعوں کے چوتھے رہنما حضرت امام زین العابدین علیہ السلام عاشورائے حسینی  کے عزت بخش اور افتخار آفرین انقلاب میں شرکت  کے بعداس لمحے سے کہ جب عاشور کے دن غروب آفتاب کے وقت آپ نے دیکھا کہ آپ کے امام و پدر بزرگوار  اور ان کے تمام اعزاء شہید ہو چکے ہیں  تو ان کے سفر کو آگے بڑھانے کے لیے ایک عظیم ذمہ داری اپنے کاندھوں پر اٹھا لی ۔

امت کی امامت ، بچوں  اور خواتین کی سرپرستی ،دنیا والوں تک عاشوراء کا پیغام پہنچانا ، طاغوت اور طاغوتیوں کے خلاف جہاد کو جاری رکھنا اور سب سے بڑھ کر امام حسین علیہ السلام کے بلند مقاصد کی پاسداری کہ جن کی وجہ سے عالم اسلام کو عزت اور کرامت نصیب ہوئی اس امام والا مقام کی کچھ ذمہ داریاں شمار ہوتی ہیں ۔

امام زین العابدین علیہ السلام کہ جو اپنی امامت کے دور میں شدید پابندیوں کے شکنجے میں تھے ، اور اموی جابر حکام نے اپنا منحوس سایہ تمام اسلامی شہروں پر پھیلا رکھا تھا اور اہل ایمان اپنے مال اور اپنی جان کے خوف سے چھپ کر زندگی بسر کر تے تھے ، صحیح ترین فیصلے کر کے اور بجا اور مناسب موقف اپنا کر اور انتہائی موئثر طریقوں سے استفادہ کرتے ہوئے عاشورائی ثقافت اور اس کے گرانقیمت محصولات کا کہ جو اسلام اور مسلمانوں کا ابدی افتخار اور ان کی عزت ہے بلکہ جہان بشریت کا افتخار اور اس کی ابدی عزت ہے ، کی مناسب طریقے سے پاسداری کی ، اور کربلا میں انقلاب برپا کرنے والوں کے راستے کو جاری رکھا ، اور سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام  کی یاد اور ان کے نام کو جاوید بنا دیا تا کہ وہ تاریخ کی پیشانی پر ہمیشہ کے لیے چمکتا رہے ۔

ایک روایت کے مطابق امام زین العابدین علیہ السلام کی شہادت کے موقعے پر حسینی عزت و افتخار کی پاسداری میں امامت کی اس یادگار کی اہم ترین سرگرمیوں سے آشنا ہونے کی کوشش کرتے ہیں ؛

۱ ۔ انقلابی اور موئثر خطبے ،

بغیر کسی شک کے  کربلا کے غمناک واقعے کے بعد امام زین العابدین علیہ السلام اور حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا اور حضرت امام حسین علیہ السلام کے خاندان کے بعض دیگر افراد  کے فکروں کو روشن کرنے والے خطبے اس عظیم اسلامی تحریک کی بقا میں قابل قدر کردار کے حامل تھے ۔

اس عظیم انسان کے خطبوں کا اہم ترین ماحسل غفلت زدہ لوگوں کو آگاہ کرنا ، سوئے ہوئے ضمیروں کو بیدار کرنا اہل بیت  اطہار علیہم السلام کے دشمنوں کے جرائم کا پردہ فاش کرنا ، اموی ستمگر حکمرانوں کے اصلی چہرے سے نقاب ہٹانا ، اہل بیت اطہار علیہم السلام کے فضائل اور مناقب کو منتشر کرنا اور ان عظیم ہستیوں کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حقیقی جانشینوں کے طور پر پہچنوانا تھا ۔ امام زین العابدین علیہ السلام شہر کوفہ میں سادہ لوح ، سطحی نظر رکھنے والے ، تاثیر پذیر اور وعدہ توڑنے والے افراد سے گفتگو کی اور اپنے آپ کو پہچنوانے اور امویوں کے مظالم سے پردہ  ہٹانے کے بعد فرمایا : اے لوگو ! میں تمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تم لوگوں نے میرے باپ کو خطوط نہیں لکھے تھے اور اس کے بعد تم نے بے وفائی  نہیں کی ؟کیا تم نے ان کے ساتھ مضبوط عہد و پیمان نہیں کیے ؟ اور اس کے بعد ان سے جنگ کر کے ان کو شہید نہیں کیا ؟  برا ہو تمہارا ! تم نے کتنا برا کام کیا ہے ، تم کیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مونہہ دیکھو گے ، جب آپ سے کہیں گے  ، تم نے میرے بچوں کو قتل کر دیا ، میرے احترام کو پایمال کیا ، پس تم لوگ میری امت میں سے نہیں ہو ! ابھی امام کی باتیں تمام نہیں ہوئی تھیں کہ لوگ روتے ہوئے اور نالہ و شیون کرتے ہوئے ایک دوسرے کی سرزنش کرنے لگے اور اپنی بد نصیبی پر کہ جسے انہوں نے خود چنا تھا افسوس کرنے لگے اور ندامت اور پشیمانی کے آنسو بہانے لگے (۱) اس خطبے  کے سب سے زیادہ اثر کو  سال ۶۵ ہجری میں توابین کے قیام میں دیکھا جا سکتا ہے ۔

اسی طرح  ہمارے چوتھے امام کو یزید کی کامیابی کے جشن میں لے جایا گیا  تو آپ نے دربار اموی کے چاپلوس خطیب کو ذلیل کرنے کے ساتھ  منبر پر تشریف لے جا کر آپ نے انتہائی فصیح و بلیغ اور کوبصیرت افروز انداز میں کربلا کے واقعات کو بیان کیا اور ظالموں کے انتہائی بد نما چہرے کو بے نقاب کرنے کے ساتھ اہل بیت اطہار علیہم السلام کے دشمنوں کی بد نما اور باطل تبلیغات کو ناکام بنا دیا اور آل محمد علیھم السلام کے سرتا پا فضیلت اور پر افتخار چہرے کو شام کے بے خبر لوگوں کے سامنے آشکار کر دیا ۔

حضرت نے فرمایا :أَیُّهَا النَّاسُ أُعْطِینَا سِتّاً وَ فُضِّلْنَا بِسَبْعٍ أُعْطِینَا الْعِلْمَ وَ الْحِلْمَ وَ السَّمَاحَةَ وَ الْفَصَاحَةَ وَ الشَّجَاعَةَ وَ الْمَحَبَّةَ فِی قُلُوبِ الْمُؤْمِنِینَ وَ فُضِّلْنَا بِأَنَّ مِنَّا النَّبِیَّ الْمُخْتَارَ مُحَمَّداً وَ مِنَّا الصِّدِّیقُ وَ مِنَّا الطَّیَّارُ وَ مِنَّا أَسَدُ اللَّهِ وَ أَسَدُ رَسُولِهِ وَ مِنَّا سِبْطَا هَذِهِ الْأُمَّةِ وَ مِنَّا مَهدِی هَذِهِ الْأُمَّةِ (۲) اے لوگو ہمیں ۶ چیزیں دی گئی ہیں  اور سات چیزوں میں ہمیں دوسروں پر برتری حاصل ہے ؛ ہمیں ،علم ،حلم، جوانمردی، فصاحت ،  شجاعت اور مومنین کے دلوں میں دوستی اور محبت  عطا کی گئی ہے ، اور ہمیں ان چیزوں میں کہ خدا کے بر گزیدہ رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ اور آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سب سے پہلے تصدیق کرنے والے حضرت علی علیہ السلام ، اور جعفر طیار اور حمزہ جو خدا اور اس کے رسول کے شیر ہیں ، اور حسن و حسین علیہما السلام  اور اس امت کے مہدی ہم سے ہیں فضیلت عطا کی گئی ہے ۔

حضرت نے آگے حضرت علی علیہ السلام کے بے شمار فضائل بیان کیے اور حضرت علی علیہ السلام کا اچھے طریقے سے دفاع کیا ، اور آخر میں امام حسین علیہ السلام کا تعارف پیش کر کے آپ کے مصائب کا ذکر کیا ۔ اس روشن گر منطقی اور ولولہ انگیز تقریر نے شامیوں کے ذہن سے گھٹن  ، غفلت اور جہالت کی فضا کو صاف کیا کہ یزید اپنا اور اپنی سلطنت کا دفاع کرنے پر مجبور ہو گیا (۳)

امام زین العابدین علیہ السلام نے ایک اور خطبہ مدینے کے نزدیک  ان لوگوں کے سامنے ارشاد فرمایا جو اس لٹے ہوئے  حسینی قافلے کے استقبال کے لیے آئے تھے اس خطبے نے بھی مدینے کے لوگوں کی روحوں  پر بہت اثر ڈالا کہ جس کے نتیجے میں واقعہ عاشورا کے ایک سال بعد بنی امیہ کی طاغوتی حکومت کے مقابلے میں  مدینے کے لوگوں نے خود جوش قیام کیا کہ جو واقعہ حرہ کے نام سے مشہور ہے ۔

۲ ۔ دشمن شکن بیانات ،

چوتھے امام علیہ السلام عاشورا کے مقاصد کی پاسداری میں جب کہیں محسوس کرتے تھے کہ دشمن قیام کربلا پر انگلی اٹھا رہا ہے اور اس تاریخی انقلاب کو بے اثر بنانا چاہتا ہے تو  ہم اس کے دفاع میں اٹھ کھڑے ہوتے تھے اور اپنے مونہہ توڑ جوابات سے ان کے شیطانی منصوبوں کے مقابلے میں ڈٹ جاتے تھے کہ جس کے سب سے زیادہ واضح نمونے عبید اللہ ابن زیاد کی مجلس اور یزید ابن معاویہ کے دربار میں دکھائی دیتے ہیں ۔ جب ابن زیاد کی مجلس میں حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا نے اپنے نطق کے ذریعے اس کو رسوا کیا تو ابن زیاد امام زین العابدین علیہ السلام کی طرف مڑا اور پوچھا کہ یہ جوان کون ہے ؟ لوگوں نے کہا : وہ علی ابن الحسین علیھما السلام ہیں ۔ ابن زیاد نے پوچھا ؛ کیا خدا نے علی ابن الحسین (علیہ السلام) کو قتل نہیں کیا ؟ تو چوتھے امام علیہ السلام نے فرمایا : میرا ایک بھائی تھا جس کا نام علی ابن الحسین (علیہما السلام) تھا کہ لوگوں نے جن کو شہید کر دیا ۔

ابن زیاد نے کہا : ایسا نہیں ہے ، خدا نے اس کو قتل کیا ہے ۔

امام زین العابدین علیہ السلام نے آیہ<اللَّهُ یتَوَفَّى الْأَنْفُسَ حِینَ مَوْتِهَا....>(الزمر/42) کی تلاوت کی ۔ ابن زیاد امام علیہ السلام کے صریح جواب سے آگ بگولہ ہو گیا ، اور بولا کہ کیا میرے سامنے بولنے کی جرائت کرتے ہو اور مجھے جواب دیتے ہو ؟ اس کو لے جاو اور اس کی گردن اڑا دو ۔ امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا :"اَبِالْقَتْلِ تُهَدِّدُنی یَابْنَ زِیاد، اَما عَلِمْتَ اَنَّ الْقَتْلَ لَنا عادَهٌ وَ کَرامَتَنَا الشَّهادَهُ" (۴) اے زیاد کے بیٹے کیا  تو مجھے قتل کی دھمکی دے رہا ہے ؟ کیا تو نہیں جانتا کہ راہ خدا میں قتل ہونا ہماری عادت ہے اور شہادت ہمارے لیے عزت اور کرامت ہے ۔

امام زین العابدین  علیہ السلام نے یزید کی مجلس میں بھی اس کے باوجود کہ آپ قیدی تھے ، کبھی بھی ایسی کوئی بات نہیں کہی کہ جس سے یہ پتہ چلتا ہو کہ آپ عاجز اور معاذ اللہ خوار ہیں ، بلکہ ایک آزاد با شہامت انسان کی طرح آپ نے  حسینی عزت و افتخار کو نمایاں کیا ۔

جب یزید نے اسیران کربلا کی تحقیر کرنے اور خاندان آل محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ابہت اور عظمت کو پامال کرنے کے لیے ان کو اپنے دربار میں حاضر کیا تو امام زین العابدین علیہ السلام کو مخاطب قرار دیتے ہوئے کہا : تم نے دیکھا کہ خدا نے تمہارے باپ کے ساتھ کیا کیا ؟ حضرت نے فرمایا : ہم نے قضائے الہی کے سوا کہ جس کا حکم زمین و آسمان میں جاری ہے کچھ نہیں دیکھا ۔ یزید نے کہا :" انت ابن الذی قتله الله " تم اس کے فرزند ہو جسے خدا نے قتل کیا ہے ۔

امام علیہ السلام نے فرمایا :" انا علی، ابن من قتلته" میں علی ، اس مقتول کا فرزند ہوں جسے تو نے قتل کیا ہے ، اس کے بعد آپ نے یہ آیت پڑھی ؛< وَمَنْ یقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِیهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَیهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِیمًا>(۵)جو شخص بھی کسی مومن کو جان  بوجھ کر قتل کرے گا اس کی سزا جہنم ہے اور وہ ہمیشہ اس میں رہے گا خدا اس پر غضبناک ہو گا اور اسے اپنی رحمت سے دور کر دے گا ، اور اس نے اس کے لیے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے ۔

یزید جب اس ٹھوس جواب کو جو اس کے جہنمی ہونے کو ثابت کر رہا تھا  برداشت نہیں کر سکا تو اس نے غصے میں آکر  امام کے قتل کا فرمان صادر کر دیا ، لیکن امام زین العابدین علیہ السلام نے انتہائی شجاعت کے ساتھ فرمایا : آزاد شدہ قیدیوں کے بچے انبیاء و اوصیاء کے قتل کا فرمان صادر نہیں کر سکتے ، مگر یہ کہ وہ دین سے خارج ہو چکے ہوں (۶)

دل دہلا دینے والا گریہ ،

امام زین العابدین علیہ السلام شہیدوں کی یاد کو زندہ رکھنے کے لیے مختلف مواقع پر اپنے عزیزوں پر گریہ کرتے تھے ، امام زین العابدین علیہ السلام کے آنسو کہ جو لوگوں کے جذبات کو بھڑکاتے تھے ، اور مخاطبین کے اذہان میں  نا خواستہ طور پر شہدائے کربلا کی مظلومیت کو مجسم کرتے تھے ، اس چیز نے عاشوراء کی تحریک کو آگے لے جانے میں بہت بڑا کردار ادا کیا  اور سید الشہداء علیہ السلام پر گریے کی ثقافت بدستور اپنا اثر چھوڑتی رہی ، اور لاکھوں عزاداروں کے احساسات  اور جذبات کو حضرت امام حسین علیہ السلام کے مقصد اور ان کی راہ سے جوڑنے میں ایک اہم ترین عنصر شمار ہوتی ہے ۔ امام حسین علیہ السلام کی محبت مجالس عزا میں آنسووں کو جنم دیتی ہے ، اور یہ باعث فخر گریہ کہ جو ہر سال محرم کے مہینے میں مؤمن سماج کے چہرے کو عاشوراء کے انقلاب کے نزدیک کر دیتا ہے اور دلوں میں امام حسین علیہ السلام کے قیام کی یاد تازہ کر دیتا ہے ۔

حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے مومنین کے لیے گریہ اور سوگواری کی ثقافت  کی بنیاد رکھی ، اور اپنے عظیم الشان والد کی شہادت کے بعد اپنی امامت کے ۳۵ سال اسی روش پر عمل کیا یہاں تک کہ تاریخ کے پانچ بڑے رونے والوں میں ان کا شمار ہونے لگا (۷) جب اس قدر گریے اور رونے کی وجہ ان سے پوچھتے تھے  تو وہ جواب میں فرماتے تھے ؛ میری ملامت نہ کریں ۔ یعقوب ابن اسحاق ابن ابراہیم پیغمبر زادے اور خود بھی پیغمبر تھے ، ان کے بارہ بیٹے تھے ۔ خدا نے ایک عرصے کے لیے ان میں سے ایک کو ان کی نظروں سے غائب کر دیا ، تو اس وقتی جدائی کے فراق میں  یعقوب کے سر کے بال سفید ہو گئے ، ان کی کمر جھک گئی ، گریہ کی شدت کی بنا پر ان کی آنکھوں کی بینائی چلی گئی ، حالانکہ ان کا وہ فرزند اسی دنیا میں زندہ موجود تھا ، لیکن میں نے اپنی آنکھوں سے اپنے باپ اپنے بھائی اور اپنے خاندان کے ۱۷ افراد کو دیکھا کہ ان کو مظلومی کی حالت میں قتل کر دیا گیا اور وہ زمین پر پڑے ہوئے تھے ۔ پس میں کیسے گریہ نہ کروں اور کیسے رونا چھوڑ دوں ؟(۸)

طاغوت کے خلاف ابھرنے والی تحریکوں کی حمایت ،

کربلا کی جاویدانی تحریک کا ایک اثر مسلمانوں کے اندر انقلاب ، شجاعت اور ایثار کی روح پھونکنا تھا ۔ انہوں نے امام حسین علیہ السلام کی جوش آفرین اور انقلاب ساز تحریک  سے سبق حاصل کرتے ہوئے ، اور امام زین العابدین علیہ السلام اور حضرت زینب کبری  سلام اللہ علیہا کا اثر قبول کرتے ہوئے طاغوت کے خلاف جہاد اور اسلام پسندی کے جذبات عوامی تحریکوں کے قالب میں قیام کیا اور اموی خود سر حکومت کے خلاف بغاوتیں کیں جنہوں نے آخر کار ان کی حکومت کی بنیاد کو متزلزل کر دیا اور اس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا ۔

 کربلا کے جانسوز واقعے کے  بعدتین مشہور تحریکوں نے جنم لیا کہ تاریخ میں  جن کے نام ہیں "قیام توابین "،" قیام مختار" اور "قیام مدینہ"  اور تینوں تحریکوں کے رہنماوں نے اس بات کا ثبوت دیا کہ ان کے اندر دینی غیرت ، اسلام پسندی امام حسین کی راہ پر چلنے کا اور اہل بیت اطہار علیہم السلام سے شدید محبت کا جذبہ ہے ۔

 امام زین العابدین علیہ السلام اگر چہ ظاہر میں ، ظالم حکمرانوں کی طرف سے شدید گھٹن اور جبر و استبداد کی وجہ سے ان تحریکوں  میں بالکل غیر جانبدار تھے  اور تقیہ میں زندگی گذار رہے تھے  لیکن حقیقت میں ان  تحریکوں کے رہنماوں سے راضی تھے اور عملا ان کی تائیید کرتے تھے ۔ مثال کے طور پر جب اہل بیت اطہار علیہم السلام کے کچھ ماننے والے محمد حنفیہ کے پاس آئے اور بتایا : کہ مختار نے کوفے میں قیام کیا ہے اور ہمیں بھی مدد اور نصرت کی دعوت دی ہے  لیکن یہ نہیں جانتے کہ اس کو اہل بیت  اطہارعلیہم السلام کی تائیید حاصل ہے یا نہیں ؟

محمد حنفیہ نے کہا : اٹھو ہم سب اپنے امام امام زین العابدین علیہ السلام کے پاس چلتے ہیں اور ان سے اپنی شرعی ذمہ داری کے بارے میں پوچھتے ہیں جب انہوں نے امام علیہ السلام کی خدمت میں اس مسئلے کو پیش کیا تو آنحضرت نے فرمایا : اے اگر کوئی غلام ہمارے خون کا انتقام لینے کے لیے لوگوں سے مدد مانگے تو ہم سب پر واجب ہے کہ اس کی مدد کریں ۔ میں اس کام کے لیے آپ کو اپنا نمایندہ بناتا ہوں آپ اس سلسلے میں جو بہتر سمجھیں وہ کریں ۔ وہ محمد حنفیہ کے ساتھ امام کی خدمت سے رخصت ہوئے جب کہ انہوں نے امام علیہ السلام کی باتیں سن لی تھیں اور کہہ رہے تھے : امام زین العابدین اور محمد حنفیہ نے ہمیں قیام کی اجازت دے دی ہے ۔(۹) 

 عارفانہ اور بیدار کرنے والی دعائیں ،

امام زین العابدین علیہ السلام کی اسلام کی عاشورائی ثقافت کی پاسداری میں سب سے بہترین روش کہ جو ان کی بصیرت کی گہرائی اور زمان شناسی کی حکایت کرتی ہے آپ کی عرفانی اور فکروں کو روشن کرنے والی دعائیں ہیں ۔ امام زین العابدین علیہ السلام کی دعائیں  بیش قیمت مجموعوں جیسے صحیفہء سجادیہ ، مناجات خمسہ عشرہ ، دعائے ابو حمزہء ثمالی ،اور یومیہ دعاوں کی صورت میں منظر عام پر آ چکی ہیں وہ ہر اہل معرفت گوشگذار اور صاحب فکر کے دل کو لرزا دیتی ہیں اور ان کے بلند و باشکوہ مفاہیم کی طرف توجہ تشنگان وادی کمال و معرفت کو سیراب کرتی ہیں ۔ وحی کے مانند ان عبارتوں کے اندر حیات بخش اجتماعی ، سیاسی ، اور ثقافتی حقایق و معارف کا ایک خزانہ موجود ہونے کے ساتھ ساتھ خلقت کے تعجب خیز واقعات کا ذکر کر کے انسان کو خالق ہستی کے ساتھ جوڑا گیا ہے اور انسان کی روح اور اس کے دل کو صفا سے ہمکنار کرنے کے ساتھ قیام حسینی کا فلسفہ بیان کیا گیا ہے ، اور دعا کرنے والا انسان نا خواستہ طور پر تنہائی اور جمود کی حالت سے نکل کر طاغوتیوں اور ستمگروں کے خلاف جہاد کے میدان میں آ جاتا ہے اور حقیقی عزت کا راستہ اس کو مل جاتا ہے ۔

حقیقت میں عرفان اور انقلاب  کی آمیزش عاشوراء کی ثقافت کا ایک سب سے نمایاں معنوی جلوہ ہے ، جیسا کہ سید ابن طاووس نے عاشورا والوں کے عرفان اور ان کی معنویت کے بارے میں لکھا ہے : عاشور کی شب میں امام حسین علیہ السلام اور ان کے ساتھی اس قدر عبادت اور مناجات میں مشغول تھے کہ ان کے عاشقانہ زمزموں کی آوازیں اس طرح سننے والوں کے کانوں تک آ رہی تھیں کہ جیسے شہد کی مکھیوں کے بھن بھنانے کی آوازیں ہوتی ہیں ، کچھ لوگ رکوع کی حالت میں اور کچھ سجدے اور قیام و قعود کی حالت میں تھے (۱۰) یہ صاحبان معرفت دعائیں کرنے والے وہ لوگ تھے کہ جنہوں نے دوسرے دن جانبازی کا مظاہرہ کیا اور ایسا انقلاب برپا کیا کہ جس نے اہل آسمان اور اہل زمین کو حیرت میں ڈال دیا امام زین العابدین علیہ السلام اس عرفان و عشق اور انقلاب کے قافلے کے ورثہ دار تھے کہ جنہوں نے اس کے احیا اور اس کی پاسداری کے لیے ، شیطان اور شیطان صفتوں کے مقابلے میں آپ نے باطنی محاذ کھولا اور تمام  خدا جو اور حقیقت طلب انسانوں کو خدا کے ساتھ جوڑنے کا قیام عاشورا کا ایک مقصد بتایا اور اس طرح انہیں آپ نے واقعی عزت سے آشنا کیا کہ< إِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِیعًا> (۱۱) یقینا عزت صرف اور صرف اللہ کی ہے ۔

امام زین العابدین علیہ السلام نے صحیفہء سجادیہ کی دعا نمبر ۴۸ میں شیعہ آئمہ کے مقام و مرتبے اور ان کی مظلومیت کو بیان کیا ہے اور عرض کی ہے :" اللّهُمّ إِنّ هَذَا الْمَقَامَ لِخُلَفَائِکَ وَ أَصْفِیَائِکَ وَ مَوَاضِعَ أُمَنَائِکَ فِی الدّرَجَةِ الرّفِیعَةِ الّتِی اخْتَصَصْتَهُمْ بِهَا قَدِ ابْتَزّوهَا‏" بار الہا ؛ یہ مقام یعنی مقام امامت ، بلند ترین درجات،  میں تیرے جانشینوں ، منتخب بندوں اور تیرے امناء سے مخصوص ہے جسے تو نے خود ان سے مخصوص کیا ہے ،لیکن غاصبوں نے ان سے چھین لیا ۔

آنحضرت نے مناجات محبین کے ایک اقتباس میں حقیقت طلب اور اہل عرفان عاشقوں کو یہ تعلیم دی ہے کہ؛" إِلَهِی! مَنْ ذَا الَّذِی ذَاقَ حَلاوَةَ مَحَبَّتِکَ فَرَامَ مِنْکَ بَدَلاً وَ مَنْ ذَا الَّذِی أَنِسَ بِقُرْبِکَ فَابْتَغَى عَنْکَ حِوَلاً إِلَهِی فَاجْعَلْنَا مِمَّنِ اصْطَفَیْتَهُ لِقُرْبِکَ وَ وِلایَتِکَ وَ أَخْلَصْتَهُ لِوُدِّکَ وَ مَحَبَّتِکَ وَ شَوَّقْتَهُ إِلَى لِقَائِکَ" (۱۲) خدایا وہ کون ہے کہ جس نے تیری محبت کی مٹھاس کو چکھا ہو اور پھر تجھے چھوڑ کر دوسروں کی دوستی کو اختیار کرے اور کون ہے کہ جو تیرے  مقام قرب  سے مانوس ہوا ہو اور اس کے بعد اس نے ایک لمحے کے لیے بھی اس نے تجھ سے رو گردانی کی ہو ؟خدایا ! ہمیں ان لوگوں میں قرار دے کہ جنہیں تو نے اپنی نزدیکی اور دوستی کے لیے منتخب کیا ہے اور انہیں اپنی محبت کے لیے چنا ہے اور انہیں اپنی ملاقات کا مشتاق بنایا ہے ۔

سب سے اہم نکتہ جو امام زین العابدین علیہ السلام کی دعاوں میں توجہ کو اپنی طرف جلب کرتا ہے حضرت کا محمد و آل محمد پر صلوات کو اہمیت دینا ہے ، اس لیے کہ اس دور میں کہ جب اہل بیت اطہار علیہم السلام اور ان کے دوستوں کے خلاف جنگ اموی حکومت کی ترجیحات میں شامل تھی اور یہاں تک کہ مولا امیرالمؤمنین  امام علی علیہ السلام اور ان کے خاندان پر سب و شتم اور لعنت کا رواج تھا قابل غور ہے ۔ اسی طرح عظمت اہل بیت اطہار علیہم السلام اور ان کی محبت کی قدر و قیمت کو اجاگر کرنا اور ان سے متوسل ہونا اہل بیت  اطہار علیہم السلام کے دشمنوں اور ان کے مخالفین کے ساتھ ایک طرح کا جہاد شمار ہوتا تھا ۔

۶ ۔ شاگردوں کی تربیت ،

قرآن و اہل بیت  اطہار علیہم السلام کے مقاصد کو آگے بڑھانے کا امام زین العابدین علیہ السلام کا ایک طریقہ صاحب استعداد انسانوں کی تربیت کرنا اور انہیں قرآن و اہل بیت اطہار علیہم السلام کے دشمنوں کے ساتھ عقیدتی اور ثقافتی جنگ کے لیے تیار کرنا تھا ۔ شیخ طوسی نے تقریبا آپ کے ۱۷۰ اصحاب  اور شاگردوں کی فہرست مرتب کی ہےکہ جن میں زیادہ تر نے امام زین العابدین سے علم حاصل کیا تھا اور ان سے روایتیں نقل کی تھیں ۔ یہاں ہم ان کے کچھ مشہور اصحاب کا ذکر کرتے ہیں :

۱ ۔ ابو حمزہ ثمالی : آپ کوفے کے شیعوں کے رہبر تھے اور علم حدیث اور تفسیر میں اونچے مقام پر فائز تھے اور آئمہ معصومین علیہم السلام ان کو چاتے تھے ۔ ۔ابو حمزہ امام کے قریبی ساتھی تھے اور امام زین العابدین علیہ السلام نے پہلی بار حضرت علی علیہ السلام کی قبر مبارک کے بارے میں جو اس زمانے تک مخفی تھی انہیں بتایا چناچہ وہ بہت سارے شیعہ فقہاء کے ساتھ حضرت علی علیہ السلام کی زیارت کے لیے جاتے تھے ۔ تفسیر قرآن ،کتاب نوادر ، کتاب زہد ، امام زین العابدین علیہ السلام کا رسالہ حقوق اور دعائے ابو حمزہء ثمالی چوتھے امام کے اس لایق ترین شاگرد کے آثار ہیں ۔

۲ ۔ یحیی بن ام طویل مطعمی : آپ امام زین العابدین کے قریبی شاگردوں میں سے تھے ۔ وہ پوری بہادری اور کمال جرائت کے ساتھ اہل بیت  اطہارعلیہم السلام سے اپنی طرفداری اور اس دور کے ستمگروں کے ساتھ اپنی دشمنی کا اظہار کیا کرتے تھے ، اور بالکل نہیں ڈرتے تھے ۔ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مسجد میں داخل ہو کر جابر اور ظالم ستمگروں سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے تھے : ہم آپ کے مخالف اور آپ کی راہ و روش کے منکر ہیں۔ ہمارے اور آپ کے درمیان ہمیشہ کے لیے کھلی دشمنی ہے ۔ (۱۳) اور کبھی کوفے کے بڑے چوراہے پر کھڑے ہو کر بلند آواز میں کہا کرتے تھے : جو بھی علی کو گالی دے اس پر خدا کی لعنت ہو ہم آل مروان سے بیزار ہیں ۔ (۱۴)

۳ ۔ محمد ابن مسلم ابن شہاب زہری : یہ شروع میں اہل سنت کے علماء میں سے تھے ، لیکن چوتھے امام کے ساتھ معاشرت اور ان سے کافی علمی بہرہ برداری کے نتیجے میں حضرت امام زین العابدین علیہ السلام سے بہت محبت کرنے لگے اور حضرت کو ہمیشہ امام زین العابدین کے لقب سے پکارا کرتے تھے ۔ چوتھے امام علیہ السلام نے بھی اس ارتباط سے فائدہ اٹھایا اور مختلف مواقع پر انہیں ستمگروں کی مدد کرنے سے منع فرماتے تھے ، آپ علیہ السلام نے ایک طویل خط میں انہیں ستم پیشہ حکمرانوں کے ساتھ تال میل رکھنے اور ان کے ساتھ رابطہ رکھنے کے نتائج سے آگاہ کیا ۔ یہ وہ شخص ہے جس نے امام زین العابدین علیہ السلام سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا ہے ۔ ۔ ایک دن زہری امام زین العابدین کی خدمت میں حاضر ہوا  غمگین ہے ، تو امام علیہ السلام نے اس کی وجہ دریافت کی : زہری نے کہا : اے فرزند رسول ! میں کچھ لوگوں  خاص کر ایسے افراد کی وجہ سے دکھی ہوں  کہ میں نے ان کی خدمت کی ہے لیکن وہ  میری توقع کے خلاف مجھ سے حسد کرتے ہیں اور میرے اموال پر ان کی نظر ہے ۔

امام زین العابدین علیہ السلام نے اس کو راہ گشا ہدایات دینے کے ضمن میں فرمایا:"اِحفَظ عَلَیکَ لِسانَکَ ؛ تَملِک بِهِ إخوانَکَ" اگر اپنی زبان کو قابو میں رکھو تو تمہارے تمام دوست آشنا تمہارے تابع رہیں گے ۔ اس کے بعد حضرت نے فرمایا : اے زہری ! جس شخص کی عقل اس کے وجود کا سب سے مکمل حصہ نہ ہو ، وہ اپنی زبان یعنی جسم کے سب سے چھوٹے حصے کے ذریعے ہلاک ہو جاتا ہے ۔ چوتھے امام نے زندگی میں کامیابی کے سب سے بڑے راز کی طرف اشارہ کرنے کے ضمن میں فرمایا : اگر دیکھو کہ کوئی مسلمان تمہارا احترام کرتا ہے اور تمہیں بزرگ مانتا ہے تو یہ کہو کہ بزرگوار وہ ہیں جو میرے ساتھ ایسا برتاو کرتے ہیں ، اور اگر دیکھو کہ لوگ تمہاری جانب کوئی دھیان نہیں دیتے تو یہ کہو کہ شاید مجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہے کہ جس کی وجہ سے میری بے احترامی ہو رہی ہے ۔

جب تم ایسا سوچو گے اور اس سوچ کے مطابق عمل کرو گے تو خدا زندگی کو تمہارے لیے آسان کر دے گا تمہارے دوست زیادہ اور دشمن کم ہو جائیں گے ۔ اس صورت میں دوسروں کی نیکیاں تمہیں خوش کریں گی ۔ اور ان کی بدی اور اذیت سے تمہیں دکھ نہیں پہنچے گا (۱۵)

ابان ابن تغلب ، بشر ابن غالب اسدی ، جابر ابن عبد اللہ انصاری ، حسن بن محمد بن حنفیہ ، زید ابن علی بن الحسین علیہ السلام ، سعید بن جبیر ، سلیم بن قیس ہلالی ، ابو الاسود دوئلی ، فرزدق شاعر ، منھال ابن عمرو اسدی ، معروف بن خربوذ مکی اور حبابہ والبیہ امام زین العابدین علیہ السلام کے معروف ترین شاگرد شاگرد شمار ہوتے ہیں کہ کربلا کی تحریک کو آگے بڑھانے اور امام زین العابدین علیہ السلام کا پیغام آیندہ نسلوں تک پہنچانے میں بڑا کردار رہا ہے ۔

اسی طرح حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے پابند مذہب شعرائے کرام کی قدر دانی  کر کے ان سے اہل بیت  اطہار علیہم السلام کی زبان کے طور پر استفادہ کیا ، کمیت ابن زیاد اسدی اور فرزدق شاعر کا شمار انہی میں ہوتا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔

حوالے ؛

·          ۱ ۔ احتجاج طبرسی ج۲ ص ۳۲ ،

·          ۲ ۔ مناقب آل ابی طالب ج۳ ص ۳۰۵ ، بحار الانوار ج۴۵ ص ۱۳۷ اور ۱۷۴ ، معالی السبطین ج۲ ص ۱۷۸ ،

·          ۳ ۔ گذشتہ

·          ۴ ۔ گذشتہ ص ۲۹۶ ،

·          ۵ ۔ نساء / ۹۳ ،

·          ۶ ۔ شرح الاخبار مغربی ج۳ ص ۲۵۳ ، ذریعۃ النجاۃ ص ۲۳۴ ،

·          ۷ ۔ امالی صدوق ص ۱۴۰ ،

·          ۸ ۔ لھوف سید ابن طاووس ص ۳۸۰ ،

·          ۹ ۔ ذوب النضار ص ۹۷ ، معجم رجال الحدیث ج۱۹ ص ۱۰۹ ،

·          ۱۰ ۔ لھوف ابن طاووس ص ۱۷۲ ،

·          ۱۱ ۔ یونس / ۶۵ ،

·          ۱۲ ۔ مفاتح الجنان مناجات نہم ،

·          ۱۳ ۔ معجم رجال الحدیث ، ج۲۱ ص ۳۸ ،

·          ۱۴ ۔ اصول کافی ، باب مجالسۃ اھل المعاصی حدیث ۱۶ ،

·          ۱۵ ۔ بحار الانوار ج۷۱ ص ۱۵۶ ،       


نظرات  (۰)

ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں لکھا گیا ہے
ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی