نیوزنور newsnoor

نیوزنور بین الاقوامی تحلیلی اردو خبررساں ادارہ

نیوزنور newsnoor

نیوزنور بین الاقوامی تحلیلی اردو خبررساں ادارہ

نیوزنور newsnoor
موضوعات
محبوب ترین مضامین
تازہ ترین تبصرے
  • ۱۱ ژانویه ۱۹، ۱۴:۱۱ - گروه مالی آموزشی برادران فرازی
    خیلی جالب بود

امام حسین علیہ السلام بے مثال و لازوال شخصیت

دوشنبه, ۱۷ سپتامبر ۲۰۱۸، ۰۹:۴۱ ب.ظ

نیوز نور : آج بھی دنیا بھر میں اٹھنے والی تحریکیں جن میں ظالموں اور غاصبوں سے حقوق حاصل کرنے اور غلامی سے نجات کا راستہ اختیار کرنے کی بات کی جاتی ہے ان کا منبع یہی حسینی تحریک ہے جسے امام حسین علیہ السلام نے میدان کربلا میں بپا کیا تھا، یہ ملوکیت کے خلاف نعرے کا جذبہ شہادت حسین علیہ السلام کا ثمرہ ہے، یہ بنیادی حقوق کا شہرہ خون حسین علیہ السلام کا معجزہ ہے، یہ معاشی انصاف کا نعرہ تحریک حسینیؑ کا صدقہ ہے اور یہ حق خود ارادیت کا چرچا قافلہ سالار کربلا علیہ السلام کا کرشمہ ہے۔

امام حسین علیہ السلام بے مثال و لازوال شخصیت

نیوز نور : آج بھی دنیا بھر میں اٹھنے والی تحریکیں جن میں ظالموں اور غاصبوں سے حقوق حاصل کرنے اور غلامی سے نجات کا راستہ اختیار کرنے کی بات کی جاتی ہے ان کا منبع یہی حسینی تحریک ہے جسے امام حسین علیہ السلام نے میدان کربلا میں بپا کیا تھا، یہ ملوکیت کے خلاف نعرے کا جذبہ شہادت حسین علیہ السلام کا ثمرہ ہے، یہ بنیادی حقوق کا شہرہ خون حسین علیہ السلام کا معجزہ ہے، یہ معاشی انصاف کا نعرہ تحریک حسینیؑ کا صدقہ ہے اور یہ حق خود ارادیت کا چرچا قافلہ سالار کربلا علیہ السلام کا کرشمہ ہے۔

عالمی اردو خبررساں ادارہ نیوزنور: خداوند کریم نے قرآن کریم میں اپنے مومن بندوں کو حکم دیا ہے کہ صرف اُس کی رضا اور خوشنودی کیلئے اعمال انجام دیں۔ " صِبْغَةَ اللَّهِ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ صِبْغَةً" کہ الٰہی رنگ چڑھا لو کیونکہ الٰہی رنگ سے بہتر کونسی چیز ہے اور ایک اور آیہ کریمہ میں پیغمبر اسلام ؐ کو فرمایا کہ:" أَنْ تَقُومُوا لِلَّهِ مَثْنَى وَفُرَادَى" کہ دو دو ہو کر اور تنہا راہ خدا میں قیام کریں۔ قرآن کریم راہ حق میں جہاد کرنے والوں کی مدح و ستائش میں فرماتا ہے کہ "اِنَّ اللہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَ اَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ" بےشک خداوند تعالیٰ مومنوں سے ان کی جان اور مال کو بہشت کے بدلے میں خرید لیتا ہے۔ 

4 ہجری شعبان المعظم کی تیسری تاریخ تھی جب آغوش سیدہ فاطمہ بنت محمد (صلوات اللہ و سلامہ علیہما ) میں امام حسین علیہ السلام کی آمد ہوئی۔ یہ وہ گھرانہ ہے جس کی پاکیزگی و طہارت کی گواہی اللہ کا کلام ان الفاظ میں دیتا ہے۔

" إِنَّمَا یرِیدُ اللَّهُ لِیذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیتِ وَیطَهِّرَکُمْ تَطْهِیرًا"

بے شک اللہ کا ارادہ ہے کہ اہل بیت (ع)سے رجس و ناپاکی کو اس طرح دور رکھے جس طرح رکھنے کا حق ہے۔

یہی وہ آیہ مجیدہ ہے جس کو سامنے رکھتے ہوئے امام حسین علیہ السلام نے  یزید کے گورنر  والی مدینہ کے سامنے انکار بیعت کیا کہ وہ اہل بیت نبوت و معدن رسالت سے ہیں اور یزید فاسق و فاجر ہے اس کی بیعت نہیں کرسکتا۔ قرآن اس گھرانے کی طہارت و پاکیزگی کا گواہ ہے۔ اس گھر میں جو پروردہ نبوت و رسالت تھا میں جب امام حسین علیہ السلام کی ولادت مبارک ہوئی۔ جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو نام رکھنے والے سبقت لینے کی کوشش کرتے ہیں، اس مقام پر ہم دیکھتے ہیں کہ اس روایت سے ہٹ کر کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سبقت نہیں لی بلکہ آنحضرت  کا انتظار کیا کہ زبان وحی سے کیا نام سامنے آتا ہے حالانکہ آپ کی والدہ ماجدہ سیدۃ نساءالعالمین، دختر رسولخدا حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہما ہیں اور آپ کے والد گرامی شاہ ولایت امیرالمومنین وارث مرسلین و حجت رب العالمین حضرت علی علیہ السلام ہیں۔

کتب تاریخ میں رقم ہے کہ جب آپ کی ولادت باسعادت کی خبر ختمی مرتبت سیدالانبیاء، محبوب الٰہی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچائی گئی تو آنحضرت نے انتہائی خوشی اور مسرت و شادمانی کا اظہار فرمایا اور پیارے نواسے حضرت امام حسین علیہ السلام کو اپنے ہاتھوں پر اٹھا کر اپنا لعاب دہن بطور اولین خوراک نومولودکے منہ میں ڈالا اور نومولود کا نام حسین تجویز کیا اور فرمایا :کہ حضرت موسیٰ کے بھائی ہارون علیہ السلام کے دو بیٹے تھے ان کے نام شبر اور شبیر تھے میں ان کے ناموں پر اپنے نواسوں کے نام رکھتا ہوں۔

 یاد رہے کہ شبر کا عربی میں ترجمہ حسن ہے جو بڑے فرزند امام حسن کا نام رکھا گیا اور شبیر کا ترجمہ حسین ہے اسی لیے آپ کا نام حسین رکھا گیا اور علماء دین نے اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ یہ نام عرب میں اس سے پہلے نہ تھے سب سے پہلے یہ نام امام حسن اور امام حسین کے لیے رکھے گئے۔ حضرت ختمی مرتبت رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت امام حسین کا عقیقہ خود کیا اور ایک مینڈھا بطور عقیقہ ذبح کیا اور ولادت باسعادت کے ساتویں روز آنحضرت نے امام حسین کے بال منڈوائے اور بالوں کے برابر چاندی راہ خدا میں صدقہ کر دی۔

دیکھنے میں آیا ہے کہ جب کوئی نومولود اس دنیا میں آتا ہے تو اس کا ذاتی تعارف نہیں ہوتا اس کے بارے عامۃ الناس سوال کرتی ہے کہ اس کے باپ کا نام کیا ہے، اس کے دادا کا نام کیا ہے، اس کا خاندان کونسا ہے، کس خاندان کا چشم و چراغ ہے، اس خاندان کی کیا خدمات ہیں، کیا کارنامے ہیں، کیا مقام ہے، یہ وہ حوالے ہوتے ہیں جو عموماً کسی بھی بچے کیلئے پیدا ہونے سے لیکر زندگی کے آخری سانس تک بطور تعارف ساتھ رہتے ہیں اس کی شخصیت کا حصہ بن جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص کسی دینی و روحانی خانوادے سے تعلق رکھتا ہے یا کسی بڑی سیاسی و سماجی شخصیت یا گھرانے سے تعلق رکھتا ہے کسی معتبر علمی نام، بلند پایہ خطیب، معروف ادیب، ممتاز شاعر، کسی نامور مجاہد و مبارز، کسی حکمران خاندان کا چشم و چراغ ہے تو کئی پشتوں تک اس کا نام لوگوں کی زبان پر سنا جاتا ہے، اسے اہمیت ملتی ہے، اور اگر اس نے مزید کارنامے سرانجام دیئے، کوئی علمی، دینی، سائنسی یا معاشرتی خدمت کی اور کوئی بڑا کارنامہ سرانجام دیا تو اس کے بعد آنے والی نسلوں کو اس کے حوالے سے یاد رکھا جاتا ہے، اس کی تعظیم کی جاتی ہے، اس کا احترام کیا جاتا ہے، یہ سونے پہ سہاگہ والی بات ہو جاتی ہے۔ امام حسین علیہ السلام تاریخ انسانی کی بہت ہی منفرد شخصیت ہیں جن کو چودہ صدیاں گذر جانے کے بعد بھی پڑھا، لکھا اور سمجھا جا رہا ہے۔ تحقیق و جستجو کے خوگر انہیں تلاش کرنا چاہتے ہیں، ان سے محبت و عشق کرنے والے اپنی انتہاؤں کو چھونے کیلئے بیقرار نظر آتے ہیں۔ 

اس بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے جب ہم فرزند علی و بتول حضرت امام حسین علیہ السلام کی تاریخ کا دھارا موڑنے والی عظیم المرتبت شخصیت کا جائزہ لیتے ہیں تو ایک خوشگوار حیرت ہوتی ہے کہ امام حسین علیہ السلام اپنی دیگر خصوصیات کی طرح اس خصوصیت میں بھی انفرادی شان کے حامل نظر آتے ہیں۔ کوئی شخص اندازہ کرسکتا ہے کہ کیا نسبتیں اور کیسی کیسی عظمتیں حضرت امام حسین علیہ السلام کے حصے میں آئیں وہ کس کے نواسے، کس کے نورِ نظر، کس کے لخت جگر اور کس کے بھائی ہیں؟ ایک ایک نسبت کی بزرگی اور رفعت کو دیکھنے کیلئے کوہ ہمالیہ جیسا قد کاٹھ چاہیئے اس کے بعد بھی ٹوپی گرنے کا احتمال بلکہ یقین ہے۔ 

یہ لازوال شرف و مقام فقط امام حسین علیہ السلام کو حاصل ہے کہ وہ رحمۃ للعالمین و خاتم النبین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ؐ کے نواسہ ہیں۔ حسین علیہ السلام کا نانا ؐ کوئی عام نانا نہیں یہ وہی ہیں جن کے نام سے نبضِ ہستی تپش آمادہ اور خیمہ افلاک ایستادہ ہے، جس کی نسبت معراج انسانیت ہے جس کی ذات سے اعتبار کائنات ہے، جس کا وجود برہان الٰہی ہے، جس کی ہستی آیہء ربانی ہے، جس کا قول حدیث اور جس کا عمل سنت ہے۔ جس کی خلوت خود آگاہی اور جلوت خدا آگاہی کا مرقع تھی جس کی بشریت آبروئے آدمیت اور جس کی نبوت رہبر انسانیت ہے، جس کے نور سے شبشتان عالم چمکے اور جس کے رنگ و بُو سے چمنستان دہر مہک رہا ہے، جس کی خاکِ راہ سُرمہ چشم بصیرت اور جس کا نقشِ کفِ پاجادہ طریقت و معرفت ہے، جس کا خیال الہام اور جس کا نطق وحی ہے، وہی سید عالم ؐ حسین علیہ السلام کے نانا ہیں جن کے قدموں کی آہٹ سن کر کوئی خضر بنا اور جن کے در کی بھیک پاکر کوئی سکندر کہلایا۔

حسین علیہ السلام کا بابا کون؟ علی علیہ السلام جس کی پیشانی سجدہ غیر اللہ کبھی آلودہ نہیں ہوئی، جس کی ایک ایک سانس میں خوشبوئے نبی ؐ بسی رہی، جس کو "باب العلم" کا لافانی خطاب حاصل ہے، جو ہر میدان جنگ میں حیدرکرار کہلایا جس کی سیاست پر عبادت کا رنگ غالب جس کی روحانیت ہر سلسلہ تصوف کا سرچشمہ ٹھہری جس کو کعبے میں ولادت اورمسجد میں شہادت نصیب ہوئی۔ حسین علیہ السلام نے کس کی آغوش میں جنم لیا؟ خاتون جنت علیہا السلام کی آغوش میں! جس کی آغوش کا تقدس عرش کے تقدس سے کسی صورت کم نہیں، جس کی چادر کا گوشہ سایہ جنت ہے، جس کے گھر کی چاردیواری کا جبرائیلؑ نے کئی بار طواف کیا، جس کے وجود کو زبانِ نبوت نے "گوشہ  دل" اور "لخت جگر"کہا، جس کی عفتِ دلیل عصمت ہے، جس کو قرآن نے چادرِ تطہیر اوڑھائی جس کا نام لینے کیلئے زبان کو کئی بار مُشک و گلاب سے وضو کرنا پڑتا ہے، جس کی ناخوشی کا کبھی رسول ؐ بھی متحمل نہیں ہوا، جس کے گھر میں احتراماً سورج کی شعاع نے کبھی جھانک کر نہیں دیکھا۔ حسین علیہ السلام بھائی کس کے ہیں؟ آپ کے بھائی  جس نے صلح کا پرچم بلند کیا تاکہ دین باقی رہے، اصول باقی رہیں۔ 

امام حسین علیہ السلام کا اصل کمال اور انفرادیت یہ ہے کہ وہ اتنی عظیم نسبتوں اور بلند حوالوں کے ہوتے ہوئے اپنی انفرادیت جس کا کوئی نعم البدل نہیں ہوا قائم رکھے ہوئے ہیں، جو ناممکن کام ہے  اما حسین  لیہ السلام)نے اسے ممکن بنایا ہے۔ یہ انہی کا خاصہ ہے، یہ انہی کا اعزاز ہے، یہ انہی سے ممکن ہے ، بڑے باپ کا بیٹا ہونا، عظیم ماں کا فرزند ہونا، جلیل القدر خانوادے کا فرد ہونا، پرشکوہ گھرانے کا چشم و چراغ ہونا باعثِ سعادت تو ہے ہی مگر کسی امتحان اور آزمائش سے بھی کم نہیں ہوتا ۔ وہ یوں کہ بڑے باپ کی عظمت کی لاج رکھنا، عظیم ماں کی آغوش کا حق ادا کرنا، خاندان کی قدر و جلالت کا پاس و لحاظ اور گھرانے کی شان و شوکت کا تحفظ کرنا جوکہ رنگ خدا سے خلاصہ ہوتا ہے کوئی معمولی آزمائش نہیں اور ساتھ ہی الگ سے اپنی شناخت بنانا کارے دارد!

امام حسین علیہ السلام کی چند اور خاص باتیں جن کا جائزہ لینا بےحد ضروری ہے یہاں ذکر کرتے ہیں۔ آپ کی شخصیت صرف ایک مبارز، ایک مجاہد، ایک حریت پسند کے طور پر نہیں دیکھنی چاہیئے۔ تاریخ کے اوراق میں آپ ہر حوالے سے ایک رہبر و رہنما اور مکمل انسان کے طور پر سامنے آتے ہیں۔

خالص خدا کیلئے قیام

خداوند کریم نے قرآن کریم میں اپنے مومن بندوں کو حکم دیا ہے کہ صرف اُس کی رضا اور خوشنودی کیلئے اعمال انجام دیں۔" صِبْغَةَ اللَّهِ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ صِبْغَةً" کہ الٰہی رنگ چڑھا لو کیونکہ الٰہی رنگ سے بہتر کونسی چیز ہے اور ایک اور آیہ کریمہ میں پیغمبر اسلام ؐ کو فرمایا کہ:" أَنْ تَقُومُوا لِلَّهِ مَثْنَى وَفُرَادَى"کہ دو دو ہو کر اور تنہا راہ خدا میں قیام کریں۔ قرآن کریم راہ حق میں جہاد کرنے والوں کی مدح و ستائش میں فرماتا ہے کہ"اِنَّ اللہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَ اَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ" بےشک خداوند تعالیٰ مومنوں سے ان کی جان اور مال کو بہشت کے بدلے میں خرید لیتا ہے۔ جیسا کہ ملاحظہ مشاہدہ کیا گیا ہے کہ اس آیہ کریمہ میں خداوند تعالیٰ نے مجاہد مومنین کی جان اور مال کی قیمت بہشت کو قرار دیا ہے اور ایک اور آیہ کریمہ میں بعض عالی مرتبہ انسانوں کی مدح و ستائش میں فرمایا:" وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یشْرِی نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ" اس آیہ شریفہ میں اس بات پر تاکید وارد ہوئی ہے کہ وہ لوگ جو اپنی جان اور مال کو خدا سے عشق کے بدلے میں فروخت کرتے ہیں اور ان کا ہدف اور مقصد صرف رضائے خدا تعالیٰ ہے۔ امام حسینؑ نے کربلا کی طرف جو سفر کیا، وہ صرف اور صرف رضائے الٰہی کے حصول کیلئے تھا، اسی وجہ سے سفر کے آغاز کے وقت اپنے جد مبارک رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مطہر کے پاس خداوندِ تعالیٰ سے دعا فرماتے ہیں کہ وہ انہیں اس میں کامیابی عطا فرمائے اور انہیں ایسے راستے پر چلائے کہ جس میں اُس کی اور اس کے رسول ؐ کی رضا اور خوشنودی ہو اور اسی چیز کا آنحضرت علیہ السلام کے دیگر خطابات میں بھی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔

جود و سخا:

امام حسین علیہ السلام پیکر سخاوت تھے۔ روایت میں ہے کہ "ابو ہشام قناد "بصرہ سے امام حسین علیہ السلام کیلئے کچھ مال و اسباب ارسال کرتے تھے اور آنحضرت علیہ السلام اپنی جگہ سے اُس وقت اُٹھتے تھے جب سب کچھ لوگوں کو ہدیہ فرما دیتے تھے۔ "ابن عسکر" روایت کرتے ہیں کہ ایک گداگر مدینہ کی گلیوں میں گدائی کرتا پھر رہا تھا کہ چلتے چلتے وہ امام حسین علیہ السلام کے دروازے پر پہنچا۔ دروازے پر دستک دی اور اس طرح کا شعر پڑھنے لگا۔ "(ترجمہ) کہ کیا آج وہ شخص ناامید پلٹا ہے جو آپ ؑسے امید رکھتا ہے اور اس نے آپ علیہ السلام کے دروازے پر دستک دی ہے۔ آپ علیہ السلام صاحب جود و سخاوت ہیں، آپ ؑبخشش کی معدن ہیں اور آپ علیہ السلام کے والد ماجد فاسقوں کے قاتل تھے"۔ امام حسین ؑنماز میں مشغول تھے، آپ علیہ السلام نے نماز کو جلدی جلدی ختم کیا اور باہر تشریف لائے، آپ علیہ السلام نے اس اعرابی کے چہرے سے اس کی تنگدستی کو دریافت فرما لیا تھا، آپ ؑواپس پلٹ گئے اور قنبر کو آواز دی۔ قنبر نے جواب دیا لبیک یابن رسول اللہ ؐ، آپ علیہ السلام نے فرمایا ہمارے اخراجات کے پیسوں میں سے کتنے باقی ہیں، قنبر نے عرض کیا وہی دو سو (۲۰۰) درہم ہیں کہ جن کے بارے میں آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ اہل بیت میں تقسیم کروں۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ وہ تمام (دوسو درہم) لاؤ، کوئی شخص آیا ہے جو ان دوسو درہم کا اُن (اہلبیتؑ ) سے زیادہ مستحق ہے، اُس اعرابی نے وہ درہم لے لئے اور یہ کہتا ہوا چلا گیا کہ "اللَّهُ أَعْلَمُ حَیثُ یجْعَلُ رِسَالَتَهُ "کہ خداوند عالم بہتر جانتا ہے کہ وہ اپنی رسالت کو کہاں پر قرار دے۔

نماز سے عشق

امام حسین علیہ السلام نماز کے ساتھ خصوصی انس رکھتے تھے ان کا بچپن آغوش نبوت و رسالت میں گذرا تھا وہ نماز بچانے ہی تو نکلے تھے، انہوں نے نانا کا دین بچانے کیلئے ہی تو قیام کیا تھا، حضرت علیہ السلام نے اپنے برادر ابوالفضل العباس علیہ السلام کو کہا کہ امویوں سے ایک رات کی مہلت لو تاکہ اس رات کو وہ صر ف دعا، نماز، تلاوت قرآن، استغفار اور خدا سے راز و نیاز میں بسر کریں اور پھر ایسے ہی اپنی مہلت کی رات کو تقسیم کیا، عشق خدا میں رات کربلا والوں نے جو رات بسر کی وہ تاریخ کا ایسا روشن و تابندہ باب ہے کہ اس کی مثالیں آج چودہ صدیاں گذر جانے کے بعد بھی دی جا رہی ہیں اور دی جاتی رہیں گی، ادھر آپ دیکھیں کہ ظہر عاشورا جب جنگ اپنے زوروں پر تھی، جب نماز کا ذکر ہوا تو آپ علیہ السلام اقامہء نماز کے لئے متفکر ہوئے اور جس شخص نے وقت نماز کا ذکر کیا اُس کو فرمایا خدا تمہیں نماز گزاروں میں سے قرار دے۔ بلکہ اب اس کا وقت ہے لہٰذا دشمن کو کہئے کہ جنگ روک دے تاکہ ہم نماز پڑھ سکیں، پھر جب وہ لوگ اس بات پر راضی نہ ہوئے تو سعید ابن عبداللہ اور زہیر ابن قین نے امام علیہ السلام کی جان کی حفاظت کی ذمہ داری اپنے سرلی اور نماز گزاروں کی حفاظت کرتے ہوئے جان جان آفرین کے سپرد کی۔ دین سے یہ محبت، نماز سے یہ عشق ان کے ماننے والوں کیلئے کافی نہیں کہ وہ ماتم و عزاء کے دوران ساری سرگرمیاں روک کے اسوہ حسینی پر عمل پیرا ہوں اور نماز کو اولیت دیں۔ امام حسین علیہ السلام کو تو یہ خراج محبت و عقیدت تاحشر ملتا رہے گا کہ وہ خانوادۂ رسالت کے چشم و چراغ ہیں مگر خاندان نبوت بھی اس پر ہمیشہ فخر کرتا رہے گا کہ حسین علیہ السلام اس کا ایک فرد ہے جس کے نام سے تحریک اُٹھی اور جس کی ذات سے ایک نئی تاریخ مرتب ہوئی امام حسین علیہ السلام نے یزید کے مقابلے میں استقامت دکھا کر میدان کربلا میں دادِ شجاعت دے کر نہ صر ف اپنے عہد میں غرور ملوکیت توڑا بلکہ پوری تاریخ کا رُخ موڑ دیا۔ 

آج بھی دنیا بھر میں اٹھنے والی تحریکیں جن میں ظالموں اور غاصبوں سے حقوق حاصل کرنے اور غلامی سے نجات کا راستہ اختیار کرنے کی بات کی جاتی ہے ان کا منبع یہی حسینی تحریک ہے جسے امام حسین علیہ السلام نے میدان کربلا میں بپا کیا تھا، یہ ملوکیت کے خلاف نعرے کا جذبہ شہادت حسین علیہ السلام کا ثمرہ ہے، یہ بنیادی حقوق کا شہرہ خون حسین علیہ السلام کا معجزہ ہے، یہ معاشی انصاف کا نعرہ تحریک حسینیؑ کا صدقہ ہے اور یہ حق خود ارادیت کا چرچا قافلہ سالار کربلا علیہ السلام کا کرشمہ ہے۔ جس طرح پھول کی ترو تازگی، طراوت اور شادابی اس بات کی دلیل ہوتی ہے کہ اس کے باریک ریشوں میں پانی کی نمی کارفرما ہے، یہ نمی نہ رہے تو پھول مرجھا جاتا ہے اسی طرح دنیا میں جاری جہادی تحریکیں اس امر کا پتہ دیتی ہیں کہ ان کی رگوں میں روحِ حسین علیہ السلام کارفرما ہے جبھی تو یہ تحریکیں زندہ ہیں بلکہ نشوونما پا رہی ہیں، ان تحریکوں نے اگر روحِ حسین علیہ السلام سے اپنا ناتا توڑا، اور کسب فیض کرنا چھوڑا تو پھر یہ تحریکیں سُوکھے ہوئے پھول کی طرح صرف کتابوں میں نظر آئیں گی نہ ان میں تازگی رہے گی اور نہ توانائی، نہ زندگی رہے گی اور نہ شادابی، جس طرح پھول کی شگفتگی پانی کے قطرے کی محتاج ہے اسی طرح ہر اسلامی انقلابی تحریک امام حسین علیہ السلام کے جذبے کی محتاج ہے۔ تاریخ کا دھارا موڑنے والی اس بے مثال ہستی کا کردار جان لینے کے بعد ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ اتنی عظمتوں اور رفعتوں میں گھرے ہونے کے باوجود امام حسین علیہ السلام کیونکر انمٹ اور لازوال منفرد شخصیت ہیں۔


نظرات  (۰)

ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں لکھا گیا ہے
ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی