محرم کے مہینے میں دینی مبلغین کی ذمہ داری ، آیۃ اللہ مکارم کی نظر میں
نیوزنور:اسلام اندر اور باہر دونوں طرف سے خطرے میں ہے ، اس دور سے زیادہ کسی دور میں بھی ذرائع ابلاغ اور سوشیل میڈیا نے اسلام کے خلاف زہر نہیں اگلا ، ماضی میں کہیں کوئی ایک کتاب اسلام کے خلاف لکھی جاتی تھی لیکن آج ہزاروں ذرائع اور چینل شب و روز اسلام کے خلاف سر گرم عمل ہیں ۔
نیوزنور:اسلام اندر اور باہر دونوں طرف سے خطرے میں ہے ، اس دور سے زیادہ کسی دور میں بھی ذرائع ابلاغ اور سوشیل میڈیا نے اسلام کے خلاف زہر نہیں اگلا ، ماضی میں کہیں کوئی ایک کتاب اسلام کے خلاف لکھی جاتی تھی لیکن آج ہزاروں ذرائع اور چینل شب و روز اسلام کے خلاف سر گرم عمل ہیں ۔ عالمی اردو خبررساں ادارے نیوزنور کی رپورٹ کے مطابق حضرت آیۃ اللہ مکارم شیرازی نے ایک تقریر میں ماہ محرم میں دینی مبلغین کی طرف سے تبلیغ دین اور اسلامی علوم کے نشر کرنے کی ضرورت اور اہمیت پر زور دیا جس کو ذیل میں ملاحظہ کیاجاسکتا ہے: ماہ محرم اہل بیت علیھم السلام کے غم و اندوہ کا مہینہ ہے ، کربلا میں سید الشہداء امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب باوفا کی ایثار گری ، شجاعت اور دلاور ی کا مہینہ ہے اور ماہ شہادت ہے (۱) حضرت سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا سوگ منانے کا مہینہ ہے ،جو اسلام کی حیات اور مذہب اہل بیت علیہم السلام کا سرمایہ ہے ،پس ان عظیم الشان مجالس سے زیادہ سےزیادہ فائدہ اٹھانا چاہیے جس کا زیادہ تر حصہ خطباء اور دینی مبلغین کے کاندھوں پر ہے ۔(۲) اس بنا پر ہر عالم دین کو مبلغ ہونا چاہیے اور اپنے علم سے معاشرے کو بہرہ مند بنانا چاہیے ، کوئی یہ مت سوچے کہ اگر تبلیغ پر جائے گا تو اس کی علمی شان اور منزلت میں کمی واقع ہو جائے گی اس لیے کہ پیغمبر اکرم ص اور حضرت علی علیہ السلام اور تمام آئمہ ع کی سیرت سے پتہ چلتا ہے کہ بنیادی طور پر ان کا کام وعظ اور خطابت تھا ۔ لہذا تبلیغ کے دوران علمائے دین در حقیقت انبیاء کی رسالت کو نبھاتے ہیں ۔ (۳) خاص ایسے زمانے میں کہ جب دشمنوں کی سرگرمی اپنے اوج پر پہنچ چکی ہے ۔ لہذا اگر ہم خدا کے دین کا دفاع نہیں کریں گے تو ہم اس کی بارگاہ میں قصور وار ہو ں گے ۔ یہی وجہ ہے کہ روایات میں ملتا ہے کہ عالم کا رتبہ عابد سے ایک ہزار گنا یا سو ہزار گنا بڑا ہے ، اس کی دلیل یہ ہے کہ عابد صرف اپنی نجات کا سامان کرتا ہے لیکن عالم کبھی کبھی ہزاروں لاکھوں انسانوں کو اپنے علم کے ذریعے نجات دلاتا ہے ۔ کوشش کرنا چاہیے کہ لوگوں کے سامنے مفید باتیں رکھی جائیں ۔ عقاید اور اخلاق کو زیادہ اہمیت دینی چاہیے اور اخلاقی برائیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے لوگوں کی اخلاقی بنیادوں کو مضبوط کرنا چاہیے ۔ (۴) ایام عزا نزدیک ہیں اور لوگوں کو اس نکتے کی طرف متوجہ کرنا چاہیے(۵) کہ آج اسلام پر دنیا کے بڑے بڑے سیاستمداروں کے ذریعے بڑے پیمانے پر حملے کیے جارہے ہیں ۔ غیر اسلامی فیلمیں بنانا ، شبہات ایجاد کرنا ، سایٹوں اور دیگر چینلوں پر فحاشی اور اس طرح کے مختلف حربے اختیار کیے جا رہے ہیں ۔ آج لاکھوں سایٹیں اور چینل اسلام اور مکتب اہل بیت ع کے خلاف تبلیغ میں مشغول ہیں ۔ (۶) جی ہاں ! اسلام کو اندر اور دونوں طرف سے خطرہ ہے کسی دور میں ذرائع ابلاغ اور سوشیل میڈیا نے اسلام کے خلاف اس قدر سرگرمی نہیں دکھائی ۔ ماضی میں کبھی کہیں ایک کتاب شیعوں کے خلاف لکھی جاتی تھی لیکن آج ہزاروں ذرائع ابلاغ اور چینل شب و روز اسلام کے خلاف سرگرم عمل ہیں ۔ (۷) لہذا انسان کا تبلیغی پروگرام مضبوط ہونا چاہیے ۔ سوشیل میڈیا کے چینلوں کے فاسد اور مفسد پروگراموں کا مقابلہ کرنا چاہیے اور جوانوں کو ان سے بچانا چاہیے ۔(۸) اس لیے کہ کبھی کبھی اسلام کی زندگی کو خطرہ لاحق ہوتا ہے تو اس وقت دینی علماء کو قیام کرنا چاہیے اپنے پاس موجود علوم کے ذریعے دین اسلام کو نجات دلائیں ، اسلام کے اندر اتنی گنجائش ہے کہ اگر اس کے علوم کی تبلیغ کی جائے تو وہ ہر زمانے میں زندہ رہ سکتا ہے ، لیکن اس کام کے لیے باصلاحیت دفاع کرنے والوں اور تبلیغ کرنے والوں کی ضرورت ہے ۔ علم یہ نہیں ہے کہ انسان اس کو اپنے سینے میں بند رکھے اور اپنے ساتھ قبر میں لے جائے ۔علم اسلام کو زندہ رکھنے کے لیے ہے اسلام اصول دین فروع دین اور احکام سے مل کر بنا ہے اور ان تینوں چیزوں کو اس وقت خطرہ ہے ۔لہذا جن لوگوں کے اندر توانائی ہے ان کو تبلیغ پر جانا چاہیے اور انہیں اس کام کو انجام دینا چاہیے ۔ (۹) یہ نہیں کہنا چاہیے کہ تبلیغ کا اثر نہیں ہوتا ۔اس لیے کہ تاثیر کے مختلف درجے ہوتے ہیں ۔ ممکن ہے کہ اسلام کے خلاف جتنے بھی منفی اقدامات ہورہے ہیں ان کو بے اثر کیا جا سکے لیکن کچھ نہ کچھ تو اثر ضرور ہو گا ۔ اس کے علاوہ احادیث سے سبق ملتا ہے کہ ضروری نہیں کہ پورے کے پورے فتنے کی آگ کو بجھایا جائے ، اس لیے کہ روایت میں ہے کہ؛"إِذَا ظَهَرَتِ الْبِدَعُ فَعَلَى الْعَالِمِ أَنْ یُظْهِرَ عِلْمَه" (۱۰) یعنی اگر بدعتیں سر ابھارنے لگیں تو عالم کو چاہیے کہ اپنے علم کا اظہار کرے ، اور یہ چیز تاریخ میں ثبت ہو جائے اور علماء کا اعتراض نمایاں ہو جائے چاہے اس کو مانیں یا نہ مانیں (۱۱) آج بدعتیں یہاں تک کہ امام، حسین علیہ السلام کی عزاداری میں بھی سرایت کر چکی ہیں (۱۲) دوسری طرف اخلاقی برائیاں زیاددہ ہو چکی ہیں ، اور ان کے آثار جیسے کثرت طلاق ، قلت ازدواج ، اور کرائم اور مالی بد عنوانیوں کے کیسوں میں اضافہ ، جیسی چیزوں میں نمایاں اضافہ ہو چکا ہے (۱۳) لہذا تبلیغ اس زمانے میں جہاد اکبر ہے اس لیے کہ یہ نفسانی خواہشات کے خلاف بھی جہاد ہے اور دشمن کے خلاف بھی ، (۱۴) اس سال تبلیغ کی ضرورت دوسرے برسوں سے زیادہ ہے اور مبلغین کو چاہیے کہ وہ تبلیغ کے لیے کمر ہمت کس لیں ۔ (۱۵) یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ دشمن کی طرف سے بڑے پیمانے پر حملوں کا آغاز ہو چکا ہے ۔ اطلاعات کے مطابق ، وہابی ، عیسائی ، صوفی اور غیر مسلم کاذب عرفااء شدت کے ساتھ سرگرم عمل ہیں ، اور ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ان کی سیاسی بنیادیں ہیں یہ مذہب کو مذہب کے ذریعے کچلنا چاہتے ہیں ، جیسا کہ شیطان نے اپنے ماننے والوں کو حکم دیا تھا کہ مومنین کو جھوٹی عبادت کے ذریعے گمراہ کریں لہذا وہ تمام لوگ جو یہ کام کر سکتے ہیں انہیں چاہیے کہ تبلیغ کریں ۔(۱۶) ہم محرم کے آغاز کے قریب ہیں اس میں ایک کام جو کیا جا سکتا ہے وہ اسلامی علوم اور علوم اہل بیت علیہم السلام کی نشر و اشاعت ہے ۔ محرم کے ایام اور امام حسین علیہ السلام کی عزاداری نے ایک بہترین اور سنہری موقعہ مذہبی مبلغین کو فراہم کیا ہے کہ جس سے فائدہ اٹھا کر وہ اسلامی علوم کی نشر و اشاعت کر سکتے ہیں ، عقاید کو مضبوط کریں اخلاق کی تہذیب کا کام کریں اور لوگوں کے اعمال کو پاک کریں اور گنہگاروں کو توبہ کی دعوت دیں ۔ اہل سنت کے پاس یہ موقعہ نہیں ہے ہم جب جلا وطنی کی زندگی بسر کر رہے تھے تو ان سے پوچھتے تھے کہ کیوں وہ اپنے مذہب کی تبلیغ نہیں کرتے۔ وہ جواب میں کہتے تھے ، کہ آپ کے پاس محرم کے ایام ہیں اور آپ کے پاس ایسے مواقع ہیں کہ کہ آپ اپنی تمام باتیں دوسروں کے کانوں تک پہنچا سکتے ہیں ، یہاں تک کہ آپ اپنی سیاسی باتیں بھی اس فضا میں کر سکتے ہیں لیکن ہمارے پاس ایسا موقعہ نہیں ہے ۔ یہاں تک کہ انقلاب اور اس میں کامیابیوں کا بہت بڑا حصہ محرم کا مرہون منت ہے (۱۷) رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کی گئی ہے کہ آنحضور نے فرمایا :" أَ لَا أُخْبِرُکُمْ بِأَجْوَدِ الْأَجْوَادٍ قَالُوا بَلَى یَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ أَجْوَدُ الْأَجْوَادِ اللَّهُ وَ أَنَا أَجْوَدُ بَنِی آدَمَ وَ أَجْوَدُهُمْ بَعْدِی رَجُلٌ عَلِمَ بَعْدِی عِلْماً فَنَشَرَه...؛" (۱۸) رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں سے پوچھا ؛ کیا میں تمہیں اس شخص کے بارے میں بتاوں کہ جو سب سے زیادہ سخی ہے ؟ لوگوں نے عرض کی ہاں یا رسول اللہ ! آنحضور نے فرمایا : سب سے زیادہ سخی خدا وند عالم کی ذات ہے (۱۹) اس کے بعد فرمایا : اور میں آدم کی اولاد میں سب سے زیادہ سخی ہوں (۲۰) اور میرے بعد سب سے زیادہ سخی وہ شخص ہے جو علم حاصل کرے اور اس کی نشر و اشاعت کرے ۔(۲۱) اس میں کوئی شک نہیں کہ ماہ محرم کے ایام اس روایت کا اصلی جلوہ ہیں اور جو لوگ تبلیغ کے لیے جاتے ہیں وہ اس کا مصداق ہیں ۔ جب سخاوت اور بخشش کی بات آتی ہے تو لوگوں کا ذہن مادی سخاوت اور بخشش کی طرف منتقل ہوتا ہے جب کہ اس سے کہیں زیادہ بالا معنوی سخاوت اور بخشش ہے کہ جس کا ایک اہم مصداق علوم کی نشرو اشاعت ہے ۔ (۲۲) دینی مبلغین اور خطبا کی رسالت اسلام کے اخلاقی مسائل اسلامی احکام اور اسلامی عقائد کو ائمہ معصومین علیہم السلام کی ولایت کو زندہ کرنے میں اہمیت انکار نا پذیر ہے اور اس کی بہت زیادہ برکتیں اور اس کے گراں قیمت آثار ہیں[۲۳] لہذا بہتر ہے کہ تبلیغ میں زیادہ تر اعتقادی ،اخلاقی اور شرعی مسائل کو بیان کیا جائے[۲۴] عزاداری سے انسان کو اچھا موقع ملتا ہے کہ وہ ان مسائل کو بیان کرے جن سے لوگوں کے احکام،عقائد اور اخلاق کی اصلاح ہو[۲۵] اس مسئلے کی تشریح میں یہ بتا دیں کہ اخلاقی برائیاں دن بدن بڑھ رہی ہیں سیٹلائٹ چینل سائیٹیں اور ذرائع ابلاغ آلودہ ہیں اور دشمن کا بے پردگی اور عریانیت کی ترویج پر اسرار تبلیغ کے امر کو اور لازمی کر دیتا ہے لہذا ہمیں چاہیے کہ اخلاقی مسائل کو رائج کریں بے پردگی آوارگی خاندانوں کا بکھرنا، بچوں کا بے سرپرست ہونا ،کچھ لوگوں کا منشیات میں مبتلا ہونا اور فحشا و منکر میں غرق ہونا اخلاقی مسائل سے غفلت کی بنا پر ہے [۲۶] دوسرا نقطہ اعتقادی مسائل کی یاد دہانی ہے جب تک اعتقادی مسائل کی بنیاد مضبوط نہیں ہوگی دوسرے مسائل حل نہیں ہوں گے اس بات کا یقین ہونا چاہیے کہ خدا حاضر و ناظر ہے اس بات کا یقین ہونا چاہیے کہ :<ما یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَیْهِ رَقِیبٌ عَتِیدٌ؛> [۲۷] انسان جو بھی بات اپنی زبان پر لاتا ہے اس پر مامور فرشتہ فورا اس کو لکھ لیتا ہے اس بنا پر ہم جو کچھ بھی کہتے ہیں وہ ہمارے نامہ اعمال میں لکھا جاتا ہے اس بات کا یقین رکھنا چاہیے کہ خدا انسان کی رگ حیات سے زیادہ اس کے نزدیک ہے ایسے مسائل کو کہ جو مبتلا بہ نہیں ہیں یا ایسے مسائل کو کہ جو لوگوں کادل خوش کرنے کے لیے ہوتے ہیں بیان نہیں کرنا چاہیے [۲۸] دوسری طرف یہ بھی جان لینا چاہیے کہ تقریر کا ایک بہت بڑا حصہ احکام کو بیان کرنا ہے [۲۹]لہذا محرم کے ایام میں دوسرے تبلیغی ایام کی طرح لوگوں کو احکام کی تعلیم دینا چاہیے [۳۰] کبھی ایک حکم کے نہ جاننے یا ایک چھوٹے سے مسئلے کے نہ سیکھنے کی وجہ سے کسی شخص کو کئی سال تک نماز روزہ کی قضا کرنا پڑ جاتی ہے کوشش کی جائے کہ لوگ حمد و سورہ درست پڑھنا سیکھ لیں اور ان کی نماز کی قرائت کی اصلاح ہو جائے [۳۱] لہذا طلاب کو دھیان رکھنا چاہیے کہ وہ جہاں بھی تبلیغ کے لیے جائیں وہاں کے لوگوں کے فقہی ،عقیدتی اور اخلاقی اشکالات کو معلوم کریں اور ان مسائل اور مشکلات کی اصلاح کی کوشش کریں [۳۲] مبلغین کو چاہیے کہ اپنی تبلیغات میں کوشش کریں کبھی بھی بغیر مطالعہ کے تقریر نہ کریں اور ہر روز لوگوں کے سامنے نئی بات اور نئی روایات بیان کریں[۳۳]نئی اور تازہ بحثوں کو چھیڑنا چاہیے تکراری بحثوں سے لوگ تھک جاتے ہیں[۳۴]وعظ اور تبلیغ سے پہلے انسان کو اسے کاغذ پر لکھ لینا چاہیے [۳۵]اسی طرح لکھی ہوئی بات کو اور کتاب کو دیکھ کر پڑھنا عیب نہیں ہے [۳۶] لیکن اگر خطیب یا مقرر بغیر مطالعہ کے تقریر کرتا ہے یا جتنا مطالعہ ضروری ہے اتنا نہیں کرتا تو وہ مطففین یا کم بیچنے والوں کا مصداق ہوتا ہے جیسا کہ اگر کوئی معلم ،ملازم ،قاضی اور سیاست مدار اپنی ذمہ داری نبھانے کے لیے اگر ضرورت کے مطابق مطالعہ نہ کرے اور اپنی ذنہ داریوں پر عمل نہ کرے تو ان پر بھی وہی حکم لاگو ہوگا جو ناپ تول میں کمی کرنے والوں پر ہوتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا قیامت پر ایمان نہیں ہے اگر معاشرے میں صرف کسی ایک دینی دستور پر عمل ہو جائے اور ہر شخص اپنی مسئولیت کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنا کام صحیح طریقے سے انجام دے تو معاشرہ گلزار بن جائے گا (۳۷) بے شک دین کے میدان میں ہدایت کرنے والوں کی عملی تبلیغ ان کی زبانی تبلیغ سے زیادہ کارآمد ثابت ہوتی ہے ، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عملی تبلیغ کا ہی نتیجہ تھا کہ فتح مکہ کے دن لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہوئے ، چونکہ اس روز پیغمبر اسلام نے مکہ کے مشرکین کی بد سلوکیوں کا جو انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ کی تھیں اچھائی اور نیکی کے ساتھ جواب دیا ان کو امان دی اور انہیں آزاد کر دیا (۳۸) یہی وجہ ہے کہ مبلغین کی عملی رفتار اسلام کے لیے بہترین عملی تبلیغ ہے (۳۹) اچھا سلوک تواضع ، ہمدردی اور اسی طرح اسلامی آداب سے آراستہ ہونا صرف زبانی مسائل پیش کرنے سے زیادہ موئثر ہوتا ہے (۴۰) ہمارے عملی اخلاق کو بھی ہماری زبانی باتوں کے مطابق ہونا چاہیے ہمیں یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ہم جو کہتے ہیں اس پر خود بھی یقین رکھتے ہیں اور عمل کرتے ہیں ،جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام فرمایا کرتے تھے :" اِنّى وَ اللّهِ ما اَحُثُّکُمْ عَلى طاعَة اِلاّ وَ اَسْبِقُکُمْ اِلَیْها، وَ لا اَنْهاکُمْ عَنْ مَعْصِیَة اِلاّ وَ اَتَناهى قَبْلَکُمْ عَنْها."(۴۱) اے لوگو ! خدا کی قسم میں کسی طاعت کےا نجام دینے پر نہیں اکساتا مگر یہ کہ میں تم سے پہلے خود وہ طاعت بجا لاتا ہوں اور کسی گناہ کے ارتکاب سے منع نہیں کرتا مگر یہ کہ پہلے خود اسے ترک کرتا ہوں (۴۲) جی ہاں مبلغین کے اعمال کو ان کے اقوال کے مطابق ہونا چاہیے اور وہ عمل کر کے بتائیں کہ وہ اپنی کہی ہوئی باتوں پر ایمان اور اعتقاد رکھتے ہیں ۔ (۴۳) یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں ملتا ہے :< ادْفَعْ بِالَّتی هِیَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذی بَیْنَکَ وَ بَیْنَهُ عَداوَةٌ کَأَنَّهُ وَلِیٌّ حَمیمٌ؛> (۴۴) بدی کو نیکی سے دور کرو اچانک تم دیکھو گے کہ تمہارے اور جس شخص کے درمیان دشمنی تھی وہ تمہارا پکا دوست بن جائے گا ۔ یعنی اے مبلغین اور اے اللہ کی طرف دعوت دینے والو! لوگوں کی خشونت کے جواب میں خشونت سے پیش نہ آو اور بدی کا جواب نیکی سے دو اور اس طرح لوگوں کو اپنے ساتھ ملاو اور انہیں خدا کی طرف دعوت دو (۴۵) اس بنا پر مبلغین کو چاہیے کہ نیک رفتار و کردار اور شہامت و شجاعت کے ساتھ عاشوراء کی قیمتی میراث کی حفاظت کی کوشش کریں (۴۶) اب اگر کوئی چاہتا ہے کہ معاشرے میں اس کے امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کا اثر ہو تو اس کو تواضع کا حامل ہونا پڑے گا (۴۷) اسی طرح امور میں نظم کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے ، اسی لیے جلسوں میں مقررہ وقت پر پہنچ جائیں اور اس سلسلے میں نظم کی رعایت کریں (۴۸) ان تفاسیر سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اخلاق عملی اور زبان عمل ، زبان سخن سے زیادہ موئثر اور کارساز و کار آمد ہوتے ہیں ۔ خودداری ، خوش اخلاقی ، تواضع اور دنیاوی چکا چوند سے بے اعتنائی اور اس طرح کی چیزیں زبان سخن سے زیادہ اثر رکھتی ہیں (۴۹) دینی مبلغین کی ترجیحات میں سے ایک داخلی اور خارجی دونوں سطحوں پر اتحاد و اتفاق کی دعوت دینا ہے ۔ بدیہی ہے کہ دشمن اصل استقلال ، حکومت اور اسلام کی سر بلندی کا مخالف ہے لہذا کوئی بھی چیز لوگوں کے درمیان اختلاف کا باعث نہیں بننا چاہیے (۵۰) خاص تب جب کہ ہمارے اصول اور مقاصد مشترک ہیں اور ہم سب حکومت ، رہبری ، اور اسلام و قرآن کو دوست رکھتے ہیں ، اور ہمیں چاہیے کہ مرجعیت کو دنیا ئے اسلام میں پناہ گاہ کے عنوان سے مانیں ۔ (۵۱) لہذا لوگوں کو ہمیں اتحاد کے بارے میں بتا نا چاہیے ۔ غالبا سب لوگ اتحاد کا دم بھرتے ہیں ، لیکن عمل کے موقعے پر اس کے خلاف عمل کرتے ہیں ۔ اتحاد کا مطلب یہ نہیں کہ جو کچھ ہم کہتے ہیں وہ اسے مان لیں ۔ سلیقے مختلف ہوتے ہیں ، ہمیں صرف یہ کوشش کرنا چاہیے کہ ایک راستے پر چلیں ۔ حضرت علی علیہ السلام اس طرح کے مسائل میں سب سے زیادہ آگاہ ہیں ، وہ فرماتے ہیں :"أَغْضِ عَلَى الْقَذَى وَ الْأَلَمِ تَرْضَ أَبَداً" (۵۲) یعنی چھوٹی چھوٹی لغزشوں کو بڑا نہیں بنا نا چاہیے ورنہ ہم ہر گز خوش نہیں رہیں گے (۵۳) دوسری جانب تمام گروہ امام حسین علیہ السلام سے محبت رکھتے ہیں اور امام حسین علیہ السلام کی مجالس میں تمام گروہ شریک ہوتے ہیں ، یہاں تک کہ اہلسنت اور بہت سارے غیر مسلمان بھی مجالس عزا میں شرکت کرتے ہیں اور نذر کرتے ہیں ۔ لہذا امام حسین علیہ السلام کی مجلسیں اتحاد کا سبب بن سکتی ہیں (۵۴) لہذا مبلغین کو چاہیے کہ تفرقہ اندازی سے بچتے ہوئے سب کو اختلاف کی آفتوں سے آگاہ کریں ۔ (۵۵) آخر میں یہ بتا دیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کے قلوب میں نفوذ کیا اور ان کی روح اور ان کی جان پر اثر ڈالاایک صحیح اور موئثر تبلیغ کا ہمیشہ یہی نتیجہ ہوتا ہے لہذا ایک حدیث میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو تبلیغ کے ثواب کے بارے میں بتایا اور اسے ان تمام افراد کے نیک اعمال کے ثواب کے برابر بتایا کہ جو ان کی تبلیغ سے ہدایت یافتہ ہوئے ہوں (۵۶) ان تمام تفاسیر کے بعد ہم دینی مبلغین کو بتا دیں کہ آپ وہی کام کر رہے ہیں کہ جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا تھا اور آپ کو اس عظیم توفیق پر خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے تا کہ خدا کا یہ لطف پایدار رہے (۵۷) جیسا کہ باطل کے خلاف حق کے محاذوں پر جہاد کرنے والے مجاہدوں کے حاصل کردہ نتائج کی حفاظت کرنا بھی علماء اور مبلغین کے ذمے ہے ، چنانچہ اگر یہ علماء نہ ہوتے تو شہدائے کربلا کے آثار مٹ جاتے اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والوں کی محنتیں برباد ہو جاتیں (۵۸) /نیوزنورڈاٹ کام۔/ ۔۔۔۔ حوالہ جات: · [1] کلیات مفاتیح نوین ؛ ص600 · [2] بیانات حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی؛درس خارج فقه؛ مسجد اعظم قم؛15/7/1394. · [3] بیانات حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی در دیدار جمعی از مسئولان، مدیران مدارس و طلاب حوزه علمیه خراسان؛25/5/1396. · [4] بیانات حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی؛درس خارج فقه؛ مسجد اعظم قم؛30/8/1390. · [5] بیانات حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی؛درس خارج فقه؛ مسجد اعظم قم؛17/8/1391. · [6] بیانات حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی؛درس خارج فقه؛ مسجد اعظم قم؛11/10/1391. · [7]همان. · [8] بیانات حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی؛درس خارج فقه؛ مسجد اعظم قم؛5/3/1395. · [9] بیانات حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی؛درس خارج فقه؛ مسجد اعظم قم؛11/10/1391. · [10] بحار الانوار؛ج48؛ ص252. · [11] بیانات حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی؛درس خارج فقه؛ مسجد اعظم قم؛18/9/1393. · [12] همان. · [13] بیانات حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی؛درس خارج فقه؛ مسجد اعظم قم؛17/8/1391. · [14] بیانات حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی؛درس خارج فقه؛ مسجد اعظم قم؛11/10/1391. · [15] بیانات حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی؛درس خارج فقه؛ مسجد اعظم قم؛17/8/1391. · [16] بیانات حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی؛درس خارج فقه؛ مسجد اعظم قم؛22/9/1388. · [17] بیانات حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی؛درس خارج فقه؛ مسجد اعظم قم؛7/7/1395. · [18] ارشاد القلوب، دیلمی، ج1، ص46. · [19] بیانات حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی؛درس خارج فقه؛ مسجد اعظم قم؛17/8/1391. · [20] همان. · [21] همان. · [22] بیانات حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی؛درس خارج فقه؛ مسجد اعظم قم؛15/7/1394. · [23] بیانات حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی در جمع هیئت های مذهبی و قشر بسیج مداحان استان قم؛21/6/1396. · [24] بیانات حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی؛درس خارج فقه؛ مسجد اعظم قم؛12/3/1395. · [25] بیانات حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی؛درس خارج فقه؛ مسجد اعظم قم؛15/7/1394. · [26] بیانات حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی؛درس خارج فقه؛ مسجد اعظم قم؛21/10/1390. · [27] سورۀ ق؛آیۀ18. · [28] بیانات حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی؛درس خارج فقه؛ مسجد اعظم قم؛21/10/1390. · [29] بیانات حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی؛درس خارج فقه؛ مسجد اعظم قم؛17/8/1391. · [30] بیانات حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی؛درس خارج فقه؛ مسجد اعظم قم؛21/10/1390. · [31] بیانات حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی؛درس خارج فقه؛ مسجد اعظم قم؛17/8/1391. · [32] بیانات حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی در دیدار جمعی از طلاب و مبلغان دینی؛22/4/1391. · [33] بیانات حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی؛درس خارج فقه؛ مسجد اعظم قم؛17/8/1391. · [34] همان. · [35] بیانات حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی؛درس خارج فقه؛ مسجد اعظم قم؛5/3/1395. · [36] بیانات حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی؛درس خارج فقه؛ مسجد اعظم قم؛16/10/1386. · [37] داستان یاران: مجموعه بحث هاى تفسیرى حضرت آیت الله العظمى مکارم شیرازى (مدظله) ؛ ص218. · [38] بیانات حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی در دیدار جمعی از طلاب و مبلغان دینی؛22/4/1391. · [39] دائرة المعارف فقه مقارن ؛ ج 2 ؛ ص506. · [40] بیانات حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی در دیدار جمعی از طلاب و مبلغان دینی؛22/4/1391. · [41] نهج البلاغه، خطبه 175. · [42] بیانات حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی؛درس خارج فقه؛ مسجد اعظم قم؛11/10/1391. · [43] همان. · [44] سورۀ فصلت؛ آیه ی 34. · [45] بیانات حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی؛درس خارج فقه؛ مسجد اعظم قم؛20/8/1394. · [46] بیانات حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی؛درس خارج فقه؛ مسجد اعظم قم؛15/7/1394. · [47] بیانات حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی؛درس خارج فقه؛ مسجد اعظم قم؛20/8/1394. · [48] بیانات حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی؛درس خارج فقه؛ مسجد اعظم قم؛30/8/1390. · [49] همان. · [50] بیانات حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی؛درس خارج فقه؛ مسجد اعظم قم؛20/3/1394. · [51] بیانات حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی؛درس خارج فقه؛ مسجد اعظم قم؛21/10/1390. · [52] نهج البلاغه؛ کلمات قصار؛ 213. · [53] بیانات حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی؛درس خارج فقه؛ مسجد اعظم قم؛21/10/1390. · [54] بیانات حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی؛درس خارج فقه؛ مسجد اعظم قم؛7/7/1395. · [55] بیانات حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی؛درس خارج فقه؛ مسجد اعظم قم؛16/10/1386. · [56] بیانات حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی در دیدار جمعی از طلاب و مبلغان دینی؛22/4/1391. · [57] همان. · [58] بیانات حضرت آیت الله العظمی مکارم شیرازی در دیدار جمعی از مسئولان، مدیران مدارس و طلاب حوزه علمیه خراسان؛25/5/1396محرم کے مہینے میں دینی مبلغین کی ذمہ داری ، آیۃ اللہ مکارم کی نظر میں
تبلیغ دین کی ضرورت و اہمیت ،
دینی مبلغین اور اسلامی علوم کے نشر کرنے کی ضرورت ،
مذہبی انجمنوں میں اسلامی عقاید ، احکام ،اور اخلاق کی ترویج کا لزوم
جن مبلغین کا مطالعہ کم ہو وہ منبر پر بیٹھ کر تقریر نہ کریں،
تبلیغ عملی سب سے زیادہ کارساز اور موئثر تبلیغ ہے ،
امت اسلامی کا اتحاد ، مبلغین کے تبلیغی پروگرام کی سب سے اہم ترجیح ،
سخن آخر ،