اسلامی بیداری سید الشہداء امام حسین ع کی فدا کاری کا نتیجہ ہے
آیت اللہ جوادی آملی :
اسلامی بیداری سید الشہداء امام حسین ع کی فدا کاری کا نتیجہ ہے
نیوزنور: اسلامی تحریک جو آپ ایران میں دیکھ رہے ہیں ،اور دوسرے ملکوں میں کہ خدا وند متعال کے لطف سے جن کی بیداری کا زمزمہ آپ سن رہے ہیں یہ سب کچھ سالار شہیدان امام حسین علیہ السلام کی فدا کاری کا نتیجہ ہے ۔
عالمی اردو خبررساں ادارے نیوزنور کی رپورٹ کے مطابق مفسر قرآن اور حوزہ علمیہ قم کے سید الاساتیذ نے قم میں ایک تقریب میں کہ جس کا نام ، سید الشہداء کی تحریک کا مدار عقل و عدل ہے ،میں ہپنے مکالمے کے دوران ایک ظریف نقطے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ انسانی معاشرے کا پھل صرف عقل اور عدل ہے فرمایا: ایک ملت کا پھل اس ملت کی عقل ہے ،اور ایک ملت کا پھل اس ملت کا عدل ہے اگر وہ سالم زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں ،تو اہل بیت علیہم السلام کی پیروی کے سوا کوئی راستہ نہیں ؛ یہ اس لیے آئے ہیں تا کہ معاشرے کو عقلمند بنائیں البتہ اخروی ثواب کا سلسلہ اپنی جگہ پر محفوظ ہے ،لیکن اس تحریک کے دنیاوی نتائج یہ ہیں کہ معاشرہ عاقل اور عادل ہو ۔
حضرت آیت اللہ جوادی کی پوری تقریر کا متن درج ذیل ہے :
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم ،
بسم اللہ الرحمن الرحیم ،
اعظم اللہ اجورنا و اجورکم بمصابنا بالحسین علیه السلام و جعلنا و ایاکم من الطالبین لثارہ علیه الصلاۃ و علیه السلام
امام کی طہارت کا تاریخ ،سر زمین اور اس کے چلنے والوں میں سرایت کرنا
دنیا کے شہیدوں کے سردار حسین ابن علی (سلام اللہ علیہ ) کی تحریک عقل اور عدل کے مدار پر تھی ؛یعنی «بَذَلَ مُهْجَتَهُ فِی الله»(۱) تا کہ لوگ عقلمند بنیں اور عملی اعتبار سے عادل کہلائیں ، اس لیے کہ تمدن ان ہی دو عناصر کے سائے میں کہ جو محور ہیں پنپتا ہے ۔
وہ معاشرہ جو جاہل ہو اور سیدھے اور ٹیڑھے راستے میں تمیز نہ کر سکے وہ ٹیڑھے راستے پر چل پڑتا ہے ،اور وہ معاشرہ کہ جو عادل نہ ہو اور ظلم اور عدل میں فرق نہ کر سکے یا فرق معلوم کرنے کے بعد عمل نہ کرے وہ گمراہ ہوتا ہے اور گمراہی کا نتیجہ ،گرنا ہے ﴿عَلی شَفا جُرُفٍ هارٍ﴾ (۲) ہے ،اور ٹیڑھے راستے پر چلنا بھی ایسا ہی ہوتا ہے سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام نے پورے طور پر اعلان کر دیا تھا اور فرما دیا تھا کہ ہمیں کسی حکومتی مقام کی لالچ نہیں ہے کسی طرح کا حکومتی مقام اور منصب ہماری آرزو نہیں ہے ہماری آرزو عقل مداری اور عدل محوری ہے چونکہ ہم حق پر ہیں اور یہ دونوں چیزیں حق کے ساتھ ہوتی ہیں ۔
قرآن کریم لطیف اور ادیبانہ تعبیرات سے مدد لیتا ہے تا کہ اس چیز کو انسان کے ذوق کے قریب کر سکے ،نفسیاتی تعبیرات میں جہل اور ظلم کو آلودگی سے یاد کیا گیا ہے ،قرآن کریم میں راہ خدا میں شہادت اور شہامت کو طیب و طاہر ہونا بتایا گیا ہے ،کبھی اہل بیت علیہم السلام کی ذوات قدسیہ کو مطھر کہا گیا ہے (۳) اور کبھی فرماتا ہے کہ جو طیب و طاہر ہو تو سرزمین طیب و طاہر کا پھل بھی طیب و طاہر ہوتا ہے ﴿وَ الْبَلَدُ الطَّیِّبُ یَخْرُجُ نَباتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ﴾. (۴) ہم ان ذوات قدسیہ کی زیارت میں پڑھتے ہیں ؛ «طِبْتُمْ وَ طَابَتِ الْأَرْضُ الَّتِی فِیهَا دُفِنْتُمْ (۵) آپ کے اندر دو خوبیاں ہوتی ہیں ایک تمہارے اپنے لیے ہوتی ہے اور دوسری یہ کہ جس سرزمین پر آپ زندگی بسر کرتے ہیں اس کو بھی اپنے وصف سے متصف کرتے ہیں ،یعنی امام معصوم جب شہادت کا جام پیتا ہے ،تو اس کے علاوہ کہ وہ خود طیب و طاہر ہوتا ہے ،وہ اس عصر اور تاریخ کو بھی طیب بناتا ہے ،اور اس شہر اور سر زمین کو بھی طیب و طاہر بناتا ہے ،ان لوگوں کو بھی کہ جو اس سے آشنا ہوتے ہیں ،اور اس کے راستے پر چلتے ہیں طیب و طاہر کر دیتا ہے ۔اگر ہم حضرت کی تاریخ کو دیکھیں تو دیکھیں گے کہ وہ طہارت کی تاریخ ہے ،اور اگر ہم اموی اور مروانی تاریخ کو دیکھیں تو دیکھیں گے کہ آلودگی ہے ،یہ وہ لوگ ہیں کہ جاہلیت نے اپنے انجاس کے ساتھ ،ان کو آلودہ کر دیا ہے ،اور حسین ابن علی علیہ السلام ایک طیب و طاہر عنصر ہیں کہ جاہلیت نے اپنے انجاس کے ساتھ ان کو آلودہ نہیں کیا ہے (۶) اور قرآن نے فرمایا ہے کہ اگر سر زمین طیب و طاہر ہو ،تو﴿وَ الْبَلَدُ الطَّیِّبُ یَخْرُجُ نَباتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ﴾.
انہوں نے حسین ابن علی علیہ السلام کو اس حالت میں شہید کیا ،اگر چہ انہوں نے اپنے دور کو آلودہ کیا ،لیکن اس طرف ،عصر امامت طہارت و پاکی کے سوا کچھ نہیں تھا ،جب شام کے دروازے کے سامنے امام زین العابدین علیہ السلام سے سوال کیا گیا کہ اس دو طرفہ جنگ اور مبارزے میں کون کامیاب ہوا ؟تو فرمایا : «إِذَا أَرَدْتَ أَنْ تَعْلَمَ مَنْ غَلَبَ وَ دَخَلَ وَقْتُ الصَّلَاةِ فَأَذِّنْ ثُمَّ أَقِمْ» (۷) اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کون کامیاب ہوا ،تو نماز کے وقت اذان اور اقامت کہو ،تب دیکھو کہ کون کامیاب ہوا ہے !اذان و اقامت میں جب پیغمبر کا نام لیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ توحید زندہ ہو گئی ، وحی و نبوت زندہ ہو گئی ،اسی طرح نماز صلاح و فلاح زندہ ہو گئی ؛ہم نے جا کراس تحریک اور فدا کاری کے ذریعے دین کو زندہ کر دیا اور واپس لوٹے تو پیغمبر کا نام زندہ ہو گیا ،اور جب پیغمبر کا نام زندہ ہو گیا تو«حُسَیْنٌ مِنِّی» بھی زندہ ہو جائے گا (۸)
عقل اور عدل اسلامی معاشرے کے دو پھل ہیں
ایک مملکت کا طیب و طاہر پھل عقل اور عدل ہے ،ممکن ہے ایک ملک میں فضائی ہوائی اور موسمی ہمآنگی سے میٹھے پھل موجود ہوں ،لیکن یہ اس ملک کے پھل نہیں ہوتے ،اسلامی معاشرے کا پھل صرف عقل اور عدل ہوتے ہیں ،اگر یہ ظاہری پھل معیار ہوتے تو خدا وند متعال کچھ آیات میں یہ نہیں فرماتا ،کچھ ایسے شہر تھے کہ جن کے دونوں طرف پر ثمر باغ تھے : ﴿فَأَرْسَلْنا عَلَیْهِمْ سَیْلَ الْعَرِمِ﴾ (۹) ہم نے ان کی زندگی کا خاتمہ کیا اور ان پر عذاب نازل کیا ،پس معلوم ہوتا ہے میٹھے شاداب اور مادی پھل قرآن کا معیار نہیں ہیں ،ایک ملت کا پھل اس ملت کی عقل ہے اور ایک ملت کا پھل اس ملت کا عدل ہے اگر وہ سالم زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں ،تو اہل بیت علیہم السلام کی پیروی کے سوا کوئی راستہ نہیں ؛ یہ اس لیے آئے ہیں تا کہ معاشرے کو عقل مند بنائیں البتہ اخروی ثواب کا سلسلہ اپنی جگہ پر محفوظ ہے ،ہر قدم جو انسان آنحضرت کی زیارت کے لیے اٹھاتا ہے یا دور سے آنحضرت کی زیارت پڑھتا ہے یا نزدیک سے آنحضرت کے حرم مطھر میں داخل ہوتا ہے اس کا اتنا ثواب ہے کہ جس کو بیان نہیں کیا جا سکتا؛ لیکن اس تحریک کے دنیاوی نتائج یہ ہیں کہ معاشرہ عاقل اور عادل ہو ۔
اسلامی بیداری سید الشہداء ع کی فدا کاری کا نتیجہ ہے
امام مجتبی علیہ السلام کے نورانی بیانات سے کہ جن کو مرحوم کلینی نے نقل کیا ہے ،اور وہ بیان یہ ہے کہ امام مجتبی علیہ السلام نے فرمایا ہے : «کُونُوا أَوْعِیَةَ الْعِلْمِ وَ مَصَابِیحَ الْهُدَی» (۱۰) آپ علم اور ہدایت کا چراغ بن جاو عالم بنو اور اپنا راستہ دیکھو ،ہدایت کا چراغ بنو اور دوسروں کو بھی راستہ دکھاو ؛ ان دو محوری عناصر کو مرحوم کلینی کی نقل کے مطابق حسن ابن علی علیہ السلام نے بیان کیا ،اور انہی دو عناصر کو سید الشہداء علیہ السلام نے اپنے خطبوں میں اپنے خطوط میں ،چاہے مکہ میں چاہے مدینے میں چاہے راستے میں ،اور چاہے کربلا میں بیان کیا ہے ،آپ نے خود کربلا میں بارہا فرمایا : لوگو ،آرام سے رہو ! حضرت نے قرآن کو اپنے سر پر رکھا ،اور اونٹ پر سوار ہوئے اور میدان میں آئے ،اس طرح کہ سب سمجھ گئے کہ جنگ اور حملے کا ارادہ نہیں ،چونکہ تلوار ہاتھ میں نہیں تھی ،قرآن کو سر پر رکھا اور فرمایا : اے لوگو !مشرق و مغرب میں پیغمبر کی بیٹی کا فرزند میرے علاوہ نہیں ،اور میں نے اس مملکت میں کوئی جرم بھی نہیں کیا ہے ،نہ سیاسی جرم نہ ثقافتی جرم ،نہ اقتصادی جرم ،نہ اجتماعی جرم ،اور نہ دینی جرم ، ہم نے کوئی بدعت نہیں جاری کی ہے ،کسی حلال کو حرام نہیں کیا ہے ،اور نہ حرام کو حلال کیا ہے «فَبِمَ تَسْتَحِلُّونَ دَمِی» (۱۱) ٹڈیوں کے جھنڈ کی طرح یہاں جمع ہو گئے ہو اور مجھے قتل کرنے پر مصر ہو میرا جرم کیا ہے ؟ اس جاہل معاشرے کو کہ جو آلودہ تھا حضرت نے اپنے اس پاک اور طیب و طاہر روحانی خون سے دھویا ،امویوں اور مروانیوں کو تاریخ کے کوڑے دان میں ڈال دیا ، اسلامی تحریک جو آپ ایران میں دیکھ رہے ہیں ،اور دوسرے ملکوں میں کہ خدا وند متعال کے لطف سے جن کی بیداری کا زمزمہ آپ سن رہے ہیں یہ سب کچھ سالار شہیدان امام حسین علیہ السلام کی فدا کاری کا نتیجہ ہے ۔اسی بنا پر زیارت نامے میں ہم پڑھتے ہیں: «طِبْتُمْ وَ طَابَتِ الْأَرْضُ الَّتِی فِیهَا دُفِنْتُمْ» اور قرآن کریم میں پڑھتے ہیں : ﴿وَ الْبَلَدُ الطَّیِّبُ یَخْرُجُ نَباتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ﴾ ،ایک طیب و طاہر ملک کا پھل ،استقلال ،امنیت ، آزادی اور عقل اور عدل مداری ہے ۔اور ہم امید کرتے ہیں کہ خدا وند متعال سب کو سید الشہداء سلام اللہ علیہ کی اس نعمت سے بہرہ برداری کی توفیق عطا کرے ۔
«غفر الله لنا و لکم و السلام علیکم و رحمة الله و برکاته»
[1]. ر.ک: تهذیب الاحکام، ج6، ص113؛ «وَ بَذَلَ مُهْجَتَهُ فِیکَ لِیَسْتَنْقِذَ عِبَادَکَ مِنَ الْجَهَالَةِ وَ حَیْرَةِ الضَّلَالَةِ».
[2]. سوره توبه, آیه109.
[3]. کامل الزیارات، ص214؛ «ائْتِ قَبْرَ الْحُسَیْنِ(علیه السلام) أَطْیَبِ الطَّیِّبِینَ وَ أَطْهَرِ الطَّاهِرِینَ وَ أَبَرِّ الْأَبْرَارِ...».
[4]. سوره اعراف, آیه58.
.[5] مصباح المتهجد، ج2، ص723.
[6]. تهذیب الاحکام، ج6، ص114؛ «أَشْهَدُ أَنَّکَ کُنْتَ نُوراً فِی الْأَصْلَابِ الشَّامِخَةِ وَ الْأَرْحَامِ الطَّاهِرَةِ لَمْ تُنَجِّسْکَ الْجَاهِلِیَّةُ بِأَنْجَاسِهَا وَ لَمْ تُلْبِسْکَ الْمُدْلَهِمَّاتُ مِنْ ثِیَابِهَا».
[7]. الامالی(صدوق)، ص677.
[8]. الإرشاد فی معرفة حجج الله علی العباد ؛ ج2، ص127؛ «حُسَیْنٌ مِنِّی وَ أَنَا مِنْ حُسَیْنٍ أَحَبَّ اللَّهُ مَنْ أَحَبَّ حُسَیْناً حُسَیْنٌ سِبْطٌ مِنَ الْأَسْبَاطِ».
[9]. سوره سبأ, آیه16.
[10]. الکافی(ط ـ اسلامی)، ج1، ص301.
[11]. الامالی(صدوق)، ص159.