بیت المقدس پر صہیونیت کے تسلط اور غزہ کے محاصرے کا آپس میں گہرا ربط ہے/القدس پر لگائی جانے والی صہیونی ضربیں اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہیں۔
فلسطینی تجزیہ نگار:
نیوزنور11ستمبر/ایک فلسطینی تجزیہ نگاراور مسجد اقصیٰ اور القدس کے امور کے ماہر نے غزہ پٹی کے عوام کو مشکلات میں ڈالنے کی فلسطینی اتھارٹی اور صدر محمود عباس کی پالیسی کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ پٹی اور مقبوضہ بیت المقدس کے محاصرے کے پیچھے ایک گہری سازش ہے۔
عالمی اردو خبررساں ادارے’’نیوزنور‘‘کی رپورٹ کے مطابق فلسطینی تجزیہ نگاراور مسجد اقصیٰ اور القدس کے امور کے ماہر’’جمال عمرو‘‘نے مقامی ذرائع ابلاغ کے ساتھ انٹریو میں کہا کہ محمود عباس کی مسجد اقصیٰ کی مسلسل بے حرمتی پر خاموشی اور القدس پر صہیونی قبضے کے حوالے سے لاپرواہی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ قوم کے کلیدی نوعیت کے مسائل کے حل میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی بیداری قومی عزم واسقلال کا راز ہے اور اسی عزم کے ذریعے غزہ اور القدس کا محاصرہ ختم کیا جاسکتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پرانے بیت المقدس پر صہیونی ریاست کا تسلط اور غزہ پٹی کے محاصرے کا آپس میں گہرا ربط ہے۔
انہوں نے کہا کہ غزہ پٹی اور القدس کے محاصرے کے درمیان معمولی سا فرق ہے غزہ پٹی کے محاصرے میں اسرائیل کے ساتھ فلسطینی اتھارٹی ، محمود عباس اور وزیراعظم رامی الحمد اللہ کھلے عام شریک ہیں جب کہ القدس کے محاصرے میں صدر عباس اور ان کے مقربین خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں فلسطینی تجزیہ نگا ر نے کہا کہ پرانے بیت المقدس کی فلسطینی آبادی سنگین مشکلات کا شکار ہےاور تمام تر مشکلات کے باوجود القدس کے باشندے پرانے بیت المقدس کے بازاروں سے خریداری پرقائم ہیں چاہے انہیں اس کی جو بھی قیمت ادا کرنا پڑے۔
انہوں نے کہا کہ یہ طرز عمل اس بات کا ثبوت ہے کہ فلسطینی قوم اپنے خلاف ہونے والی سازش کے حوالے سے بیدار ہے مگر دوسری طرف صدی کی ڈیل کی امریکی سازش پر فلسطینی اتھارٹی مجرمانہ غفلت کا شکار ہے۔
انہوں نے فلسطینی اتھارٹی کے دوغلے پن کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ غزہ پٹی فلسطینی مقاومت کاروں کا مرکز ہونے کے ساتھ صہیونی غاصب ریاست کے سامنے مقاومت کا مضبوط محاذ ہے۔
مقبوضہ بیت المقدس سے تعلق رکھنے والے فلسطینی تجزیہ نگار جمال عمرو نے کہا کہ صہیونی ریاست اس وقت غزہ پٹی اور بیت المقدس پر اپنی رعونت کا استعمال کررہا ہے فلسطینی اتھارٹی کو غزہ اور القدس کے عوام کے مسائل کے حل میں کوئی دلچسپی نہیں اس کی دلچسپی اور تمام تر توجہ غرب اردن میں یہودی آباد کاروں اور غاصبوں کو تحفظ دلانا ہے۔
موصوف تجزیہ نگار نے کہا کہ غزہ اور القدس صہیونی ریاست کے پروگرام کے سامنے ایک بھاری پتھر ہے فلسطینی قوم زندہ اور بیدار ہے اور وہ دشمن کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے گی صہیونی ریاست کے سامنے پورے عزم کے ساتھ مقاومت جاری رکھنا ہی عزم استقلال کی علامت ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیلی صیہونی رژیم اقتصادی اور سیکورٹی کے پہلو سے مسجد اقصیٰ کا محاصرہ کررہی ہے بیت المقدس میں فلسطینی تاجروں پر پابندیاں اور یہودی کاروباری طبقے کو سہولتیں دی جا رہی ہیں۔
جمال عمرو نے مزید کہا کہ مسجد اقصیٰ صبح وشام یہودیوں سےبھری رہتی ہے قبلہ اول کے تمام راستے یہودیوں کے لیے کھول دیے گئے ہیں القدس کے فلسطینی باشندوں پرعرصہ حیات تنگ کردیا گیا وہ اپنے تحفظ کے لیے کوئی چیز نہ لا سکتے ہیں اور نہ ہی اپنے گھروں کی تعمیرو مرمت کرسکتے ہیںجو اس بات کا غماز ہے کہ القدس اور اس کے باشندوں پر لگائی جانے والی صہیونی ضربیں اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہیں۔