بن سلمان کی پالیسیاں ملک کی تباہی کاآغاز
مشرق وسطی کے امور کے ماہر:
نیوزنور23اگست/مشرق وسطی کے امور کے ایک ماہرنے کہا ہے کہ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان جو پالیسیاں اختیار کر رہے ہیں وہ ایسی ہیں کہ ان کے بارے میں کوئی کچھ بھی اندازہ نہیں لگا سکتا۔
عالمی اردو خبررساں ادارے’’نیوزنور‘‘کی رپورٹ کے مطابق مشرق وسطی کے امور کے ماہر’’ اسٹیفن کک‘‘ نے اپنے ایک مقالے جسے برطانوی روز نامہ’اکنامسٹ‘نے شائع کیا ہے میں لکھا ہے کہ اس وقت ضروری ہے کہ سعودی عرب کے اتحادی ممالک بن سلمان کو سمجھائیں اور ان کے ہاتھوں سے سعودی عرب کی تباہی و بربادی کو روکیں اور اگر اتحادی ممالک ایسا نہ کر پائیں تو انہیں چاہئے کہ سعودی عرب کو اسلحے کی فروخت روک دیں۔
انہوں نے لکھا ہے کہ بن سلمان اپنی پالیسیوں کی وجہ سے عوام سے بہت دور ہوتے جا رہے ہیں اور سرمایہ گزار وہاں سے باہر نکل رہے ہیں اور اتحادی ممالک سے تعلقات کشیدہ ہو رہے ہیں اس حوالے سے سامنے کی مثال کینیڈا کی ہے جس کے بارے میں سعودی عرب نے اچانک سخت اقدامات کئے۔
مقالہ نگار کے مطابق بن سلمان کے غصے سے کینیڈا کو کچھ خاص نقصان نہیں ہوا البتہ اس کا نقصان سعودی عرب میں زیر تعلیم سعودی طلبہ اور وہاں علاج و معالجے کے لئے سعودی مریضوں کو اُٹھانا پڑا جبکہ ملک کی ساکھ کو بھی کاری ضرب لگی ہے۔
انہوں نے لکھا ہے کہ سرمایہ گزار اس چیز کو اولیت دیتے ہیں کہ جس ملک میں سرمایہ گزاری کرنے جا رہے ہیں وہاں کی حکومت کی پالیسیاں اور فیصلے ان کے اندازوں کے مطابق ہوں تاہم بن سلمان جو کچھ کر رہے ہیں وہ اس کے بالکل برعکس ہےاورکینیڈا کے سلسلے میں سعودی حکومت نے جو کچھ کیا یا اس سے پہلے قطر کے بارے میں ریاض حکومت نے جو رویہ اختیار کیا اس سے علاقے میں تجارت میں رکاوٹیں پیدا ہو رہی ہیں ۔
موصوف ماہر نے لکھا ہے کہ سعودی عرب میں جس طرح امیر اور تاجر شہزادوں کو گرفتار کیا گیا اس سے تو یہی پیغام دیا گیا کہ سب کچھ سعودی ولیعہد کی من مانی ہو رہی ہےبن سلمان نے خواتین کو ڈارائیونگ کی اجازت دلانے کے لئے جن خواتین نے مہم شروع کی تھی انہیں گرفتار کروا لیا حکومت ریاض نے لبنان کے وزیر اعظم سعد الحریری کو ریاض بلا کر انہیں گرفتار کر لیا اسی طرح وہ یمن میں جنگ شروع کئے ہوئے ہےاور اس سے سعودی عرب کے اقتصاد کو جو نقصان پہنچا وہ اپنی جگہ اس سے سعودی عرب کے اتحادیوں جیسے برطانیہ اور امریکہ پر شدید سوال اُٹھنے لگے ہیں جو سعودی عرب کو ہتھیار سپلائی کر رہے ہیں۔
انہوں نے لکھا کہ سعودی عرب کے اندر سیاسی اور میڈیا حلقوں میں سے کسی کے پاس بھی اتنی جراءت نہیں ہے کہ وہ ولیعہد کو ٹوک سکیں کہ وہ غلطی کر رہے ہیں اس لئے غیر ملکی اتحادیوں کو چاہئے کہ وہ بولیں لیکن انہوں نے سکوت اختیار کر رکھا ہےاوریہ خاموشی بہت بڑی غلطی ہے۔
انہوں نے لکھا کہ حالیہ دنوں میں مغربی ممالک کے میڈیا میں سعودی عرب کے حالات کے سلسلے میں شدید تنقیدیں کی گئی جبکہ اس وقت تو محمد بن سلمان کو شک کی نظر سے دیکھا گیا جب بن سلمان نے ولیعہد محمد بن نائف کو سبکدوش کرکے ولیعہد کا عہدے پر قبضہ کر لیا تھا۔
مقالہ نگار نے اپنے مقالے میں مغربی میڈیا کو مشورہ دیا تھا کہ وہ سعودی عرب کے بارے میں اپنے رجحان پر نظر ثانی کرے اور اپنے اس مؤقف کو تبدیل کرے کہ محمد بن سلمان ایک لبرل رہنما ہیں جو سعودی عرب کو بالکل مختلف جہت کی جانب لے جا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بن سلمان کی پالیسیوں سے ان کی حقیقیت سامنے آ گئی ہے کیونکہ انہوں نے کینیڈا کے ساتھ تعلقات صرف اس بات پر منقطع کر لئےکیونکہ کینیڈا نے سعودی عرب کی سوشل کارکن کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔
مشرق وسطی کے امور کے ماہر اسٹیفن کک نے اپنے مقالے میں مزید لکھا کہ سعودی عرب نے اس کشیدگی کے لئے غلط ملک کا انتخاب کر لیا۔
- ۱۸/۰۸/۲۳